تحریر:مرلی کرشن
ایک معروف بھارتی یوٹیوبر رنویر الہ آبادیہ، جو اپنے آن لائن ہینڈل @BeerBiceps سے زیادہ مشہور ہیں، نے جون میں اپنے یوٹیوب چینل پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وزراء کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا۔
الہ آبادیہ کے یوٹیوب چینل کے تقریباً چھ ملین سبسکرائبرز ہیں اور اس میں انٹرویوز کی ایک متاثر کن لائن اپ ہے جس میں وزیر اطلاعات راجیو چندر شیکھر اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر جیسے اہم وزراء بھی شامل ہیں۔
ویڈیوز کے اس سلسلے پر @MyGovIndia کی ایک شریک پیشکش کے طور پر لیبل لگایا گیا تھا، جو کہ بھارتی حکومت کی طرف سے شہریوں کے ساتھ رابطوں کے لیے قائم کردہ ایک پلیٹ فارم ہے۔ صرف ایس جے شنکر کے انٹرویو پر 6.2 ملین سے زیادہ صارفین کی آراء موصول ہوئیں۔
دوملین فالوورز کے ساتھ ایک اور ممتاز یوٹیوبر راج شامانی نے بھی MyGov کے ‘تعاون سے’بی جے پی کے سیاست دانوں کے انٹرویوز اپ لوڈ کیے۔ کامرس اور صنعت کے مرکزی وزیر پیوش گوئل نے بھی حال ہی میں ملک میں 50 سے زیادہ اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے YouTubers کے ساتھ مختلف مسائل پر ایک آن لائن راؤنڈ ٹیبل کا انعقاد کیا۔
حکومت نے ممتاز اخبارات میں صفحہ اول پر اشتہارات بھی شائع کیے، جن میں سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والوں یا سوشل میڈیا انفلونسرزکی تصاویر اور ان کے یوٹیوب چینلز کا ذکر کرتے ہوئے ان کے انتخاب کی توثیق کی گئی۔ ان انفلونسرز میں موٹیویشنل اسپیکرز سے لے کر مالی معاملات پر صلاح دینے والے جادوگر، مذہبی قصیدہ خوان اور نوجوانوں کے آئیکن تک شامل تھے۔
بی جے پی نے مئی 2024 میں عام انتخابات اورنریندر مودی کے بطور وزیر اعظم تیسری مدت کے لیے انتخاب کی خواہش کے ساتھ سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والوں کا سہارا لےکر میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس پارٹی نے عوامی خاص طور پر ووٹروں کی ذہن سازی میں سوشل میڈیا کے اہم کردار کے پیش نظر اپنی آن لائن مہم کو تیز کر دیا ہے۔
بی جے پی کے ایک ترجمان ٹام وڈاکن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہماری ایک سیاسی ذمہ داری ہے۔ ہم اپنی پارٹی کو ایک این جی او کی طرح نہیں چلاتے۔ ہمیں ووٹروں کو اپنی کامیابیوں سے آگاہ کرنا ہے اور اس معلومات کو دور دور تک پھیلانا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ”تیاریاں شروع ہو چکی ہیں، اور اس لیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کے آئیکنز کو عوامی رسائی کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے۔‘‘
بھارت میں سوشل میڈیا کے بہت سے سرکردہ افراد نے انسٹاگرام اور یوٹیوب پر کافی فالوورز بنائے ہیں اور وہ اپنے پیروکاروں کے خریداری کے فیصلوں، عقائد اور اقدار کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
ہدف، نوجوان بھارتی ووٹرز
بی جے پی جیسی سیاسی جماعتیں میڈیا کے ایک منقسم منظر نامے اور صحافیوں کے لیے جگہ سکڑتی ہوئی دیکھ کر بڑے پیمانے پر کم عمر سامعین تک پہنچنے کے لیے سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والوں کی طرف رجوع کر رہی ہیں۔
راکوٹین انسائیٹ کے مئی 2023 کے ایک سروے کے مطابق 25 سے 34 سال کی عمر کے 72 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ سوشل میڈیا پر کم از کم ایک اثر انگیز شخص کی پیروی کرتے ہیں۔
بھارت کی نوجوان آبادی آئندہ 2024 کے عام انتخابات میں فیصلہ کن انتخابی گروپوں میں سے ایک ہوگی۔ 2019 کے انتخابات میں اٹھارہ سے انیس سال کی عمروں کے درمیان کے 45 ملین لوگوں کے بارے میں کہا گیا تھا وہ پہلی بارکے ووٹر ہیں۔ 2024 میں پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ بڑھنے والی ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے پالیسی ڈائریکٹر پرتیک واگھرے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ایسا لگتا ہے کہ روایتی خبر رساں اداروں کا اثر و رسوخ کم ہے، اور یہی وجہ ہے کہ پارٹی زیادہ سے زیادہ فائدے اور عوامی رسائی کے لیے انفلونسرز کے راستے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،”اگر انفلونسرز اپنی برانڈ ویلیو کو کم کیے بغیر پوری تندہی سے پیغام پھیلا سکتے ہیں تو یہ ان کے پروفائل اور ممکنہ طور پر ان کی مزید تائید میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔‘‘
ودی اپنے 90 ملین سے زائد فالوورز کے ساتھ پہلے ٹوئٹر اور اب ایکس کے نام سے پہچان رکھنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر فعال سیاست دانوں میں سب سے آگے ہیں۔
(بشکریہ ڈی ڈبلیو۔ یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)