تحریر: افتخار گیلانی
بھارت میں عام انتخابات میں ابھی ڈھائی سال باقی ہیں۔ مگر اپوزیشن خاص طور پر کانگریس کی حالت زار دیکھ کر لگتا ہے کہ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہی یہ معرکہ تیسری بار سر کر لے گی۔ کسانوں کی ملک گیر ایجی ٹیشن، حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج تو ہے، مگر اپوزیشن ابھی تک اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پا رہی ہے۔ کانگریس میں سر پھٹول جاری ہے ۔
2004کے برعکس سیکولر اور لبرل فورسز کو یکجا کرنے کے بجائے پچھلے کئی انتخابات میں وہ راہل گاندھی کی قیادت میں سافٹ ہندوتوا کے ذریعے عوام کو لبھانا چاہ رہی ہے۔ اگر عوام کو ہندوتوا پر ہی اکٹھا کر نا ہے ، تو وہ دو نمبر ہندوتوا کی کیوں حمایت کریں گے؟ یہ پارٹی اس معمولی سے نکتہ کو پچھلے آٹھ سالوں سے سمجھنے سے قاصر ہے۔ حال ہی میں کانگریس کی کار گزار صدر سونیا گاندھی کی صاحبزادی پرینکا گاندھی نے اتر پردیش صوبہ کے لکھیم پوری کھیری ضلع میں بی جے پی کے مقامی لیڈر اور مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے کمار مشرا کے بیٹے آشیش کمار مشرا کے خلاف محاذ کھولا اور گرفتاری ، اگر اسی طرح کانگریس نے اپوزیشن کا کردار پچھلے آٹھ سالوں میں ادا کیا ہوتا، تو حالت مختلف ہوتی۔ مشرا نے احتجاج کرنے والے سکھ کسانوں کے اوپر مبینہ طور پر گاڑی چڑھا کر چھ افراد کو ہلاک کیا۔ مگر ماہرین کے مطابق اس سعی کا کانگریس کو اب کوئی زیادہ فائدہ نہیں پہنچے گا اور ان کا ووٹ اتر پردیش میں 6سے7فیصد کے درمیان ہی رہے گا۔
بس کانگریس کو اپنے آپ کو دوبارہ دریافت کرنا پڑے گا اور ایک نئی اور صاف و شفاف ذہن کی لیڈرشپ ہی اس کو اب زندہ کرسکتی ہے۔ بڑا سوال اب بھارت میں یہ گردش کر رہا ہے کہ بی جے پی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں اگلا وزیر اعظم کون ہوگا؟ نئی دہلی میں مغربی ممالک کے سفارت خانے آج کل سیاسی تجزیہ کاروں، لیڈروں اور ہند و قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ (آر ایس ایس) کے رہنمائوں اور کارکنوں خاطر مدارت میں لگے رہتے ہیں، تاکہ سن گن لی جاسکے کہ کیا آرایس ایس نریندر مودی کو تیسری بار وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے دے سکتی ہے؟
ابھی حال ہی میں نئی دہلی میں امریکہ کے قائم مقام سفیر اتل کشپ ایسی ہی سن گن لینے کیلئے آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملنے پہنچے تھے۔ ابھی تک یہی لگ رہا ہے کہ چونکہ آرایس ایس مودی کے سیاسی قد اور اس کی پارٹی سے بالاتر شخصیت سے خائف ہے، اس لئے وہ ان کوتیسری بار وزیر اعظم نہیں بننے دے گی۔ ویسے تو مودی نے خود ہی سیاسی عہدہ کیلئے عمر کی حد 70سال مقرر کرکے کئی لیڈروں کو گھر پر بٹھادیا، اب 2024 کے عام انتخاب میں یہی رول ان پر بھی فٹ آئے گا۔ اگلے سال کے وسط میں بھارت میں صدارتی انتخاب بھی منعقد ہونے والاہے۔
فی الحال مودی کے جو دو جانشین منظر عام پر ہیں، وہ وزیر داخلہ امت شاہ اور اترپردیش صوبہ کے وزیرا علیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں۔ اندرون خانہ بی جے پی میں پچھلے کئی سالوں سے گجرات لابی کی برتری کی وجہ سے رن پڑا ہوا ہے۔ دونوںمودی اور امت شاہ گجرات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ا ن کی وجہ سے مرکزی حکومت میں گجرات بیوروکریسی کا پورے طور پر قبضہ جما ہوا ہے۔ مودی نے ملک کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کو رام کرنے کیلئے وارانسی سے انتخاب جیت کر اپنے آپ کو اسی صوبہ کے نمائندہ کے طور پر منوا تو لیا، مگر یہ شاید امت شاہ کیلئے یہ ممکن نہیں ہوگا۔
پچھلے کئی برسوں سے یوگی آدتیہ ناتھ نے سیاسی قد کے معاملے میں شاہ کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگلے سال فروری میں اتر پردیش کے صوبائی انتخابات ان کیلئے ایک امتحان ہوںگے۔ اگر وہ بی جے پی کو واپس حکومت میں لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو2024میں ان کا وزیر اعظم بننا تقریباً طے ہے۔
مودی کے برعکس یوگی کبھی آرایس ایس کے ممبر نہیں رہے ہیں۔2017 میں و زیر اعلیٰ بننے تک وہ بی جے پی کے بھی رکن نہیں تھے، گو کہ گورکھپور سے وہ 1998سے لگاتا ر بی جے پی کے ٹکٹ پر پارلیمانی انتخاب جیتے آئے ہیں۔ ا ن کے مرشد گھورکھپور کے گھورکھناتھ مٹھ یا مندر کے مہنت یوگی آوید ناتھ نے اتر پردیش میں اپنا نیٹ ورک ہندو یوا واہنی کے نام سے کھڑا کیا ہوا تھا۔ اس سیٹ پر آوید ناتھ ہی الیکشن لڑتے تھے، جو بابری مسجد کے خلا ف مہم کے ایک روح رواں تھے۔ مگر 1998میں انہوں نے بی جے پی کو مجبور کیا کہ ان کے بدلے اب ٹکٹ ان کے شاگرد یوگی آدتیہ ناتھ کو دیا جائے۔
مجھے یاد ہے کہ جب وہ پہلی بار پارلیمنٹ میں آئے، زعفرانی رنگ کے کپڑے پہنے وہ خاصے شرمیلے دکھائی دیتے تھے اور اکثر لالو پرساد یادہ کے طنزیہ جملوں کا نشانہ بنتے تھے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کا اصل نام اجے سنگھ بشٹ ہے ، اور وہ اتراکھنڈ صوبہ کے ایک راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد فارسٹ رینجر تھے ۔ حساب میں گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نے دنیا تیاگ کر گورکھ ناتھ مٹھ میں مہنت آوید ناتھ کی شاگردی اختیار کی، جس نے ان کو چند سال بعد ہی پجاریوں کا سربراہ بنا دیا۔ یہ عہدہ کسی برہمن کو ہی دیا جاتا ہے، مگر آخر آوید ناتھ نے اس نوجوان سنیاسی میں کیا دیکھ کر اس کی پذیرائی کی، ہنوز ایک راز ہے۔
مودی نے وزیرا عظم بننے کے بعد جس طرح اپنی پارٹی کے لیڈران کو کنارے لگادیا یا ان کی وقعت کم کردی، آدتیہ ناتھ واحد شخصیت ہیں، جو اس دوران اپناسیاسی قد بڑھانے اور حلقہ اثر وسیع کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے مودی اور امت شاہ کی جوڑی نے کئی وزراء اعلیٰ اور مرکزی وزیروں کو چھٹی کردی ، مگر انتظامی ناکامی کے باوجود وہ یوگی کو ہاتھ نہیں لگا سکے۔
بی جے پی کے ایک لیڈر کے مطابق مودی۔شاہ جوڑی اور پارٹی کے اند ر گجرات لابی یوگی کو پسند نہیں کرتی ہے، مگر ان کے مطابق وہ اس وقت پارٹی کے اندر مقبول ترین لیڈر ہیں اور ان کے پشت پر آرایس ایس کا بھی ہاتھ ہے۔ اس لیڈر کے مطابق یوگی کی پوزیشن اس وقت وہی ہے، جو 2013میں مودی کی تھی۔ اس وقت پارٹی کی مجلس عاملہ نے معمر لیڈر ایل کے اڈوانی کو دروازہ کی راہ دکھا کر ان کی مخالفت کے باوجود مودی کو وزارت اعظمیٰ کے امیدوار کیلئے منتخب کیا، باقی کام گرائونڈ پر آرایس ایس اور بھار ت کے کارپوریٹ سیکٹر نے کیا۔
دلچسپ بات ہے کہ جہاں مودی کے علاوہ وزیروں و وزراء اعلیٰ پر تشہیری مواد پر اپنی تصویر لگانے پر پابندی عائد ہے، یوگی اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ایک سیاسی تجزیہ کار کے مطابق آرایس ایس میں یہ سوچ پختہ ہو رہی ہے کہ مودی سے جتنا کام لیا جاسکتا تھا وہ لیا جا چکا ہے۔ اب وہ عالمی پذیرائی کے حصول کیلئے ہندوتوا کے ایجنڈاکو نرم کرنے کے فراق میں ہیں۔ آر ایس ایس کا خیال ہے کہ اس کے پاس یوگی کے علاوہ کوئی اور عوامی لیڈر موجود نہیں ہے۔ مزید کہ ملک کے سب سے بڑے صوبہ میں یوگی کا اپنا ہندو واہنی کا کیڈر قریہ قریہ میں پھیلا ہوا ہے۔
2017کے اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کے بعد تو مودی ، جموں و کشمیر کے موجودہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتے تھے۔ وہ حلف برداری سے قبل ایک ہیلی کاپٹر چارٹر کرکے اترا کھنڈ کے پہاڑوں میں اپنے آبائی مندر میں آشیر واد لینے بھی چلے گئے تھے۔ مگر واپسی پر ان کو معلوم ہوا کہ آرایس ایس نے قرعہ یوگی کے نام نکالا ہے۔
لگتا ہے کہ وزارت اعظمیٰ کی کرسی سنبھالنے سے قبل ان کو انتظامی امور کی تربیت کیلئے اترپردیش کے وزارت اعلیٰ کا منصب سونپا گیا۔ یوگی بھی اپنی سخت گیر ہندو انتہا پسند شبیہ کو کم کرنے نہیں دینا چاہتے ہیں۔ وہ بالکل مودی کے نقش قدم پر چل کر کارپوریٹ سیکٹر کو مراعات دے کر ان کی خوشنودی حاصل کرکے اور اپنی تقریروں میں اقلیتی طبقوں کو نشانہ بناکر اور قوم پرستی کا جنون پیدا کرکے ووٹ بٹورنے کا کام کر رہے ہیں۔ اگر کسانوں کی ایجی ٹیشن سکھ علاقے لکھیم پور کھیری ضلع سے باہر پھیل جاتی ہے، اور اپوزیشن اس کا فائدہ اٹھا پاتی ہے، تو بس وہی ان کے اس مارچ کو روک سکتی ہے۔
فی الحال وہ اور ان کے حواری اس ایجی ٹیشن کو سکھ بنام ہندو پیش کرکے اس کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر ہندو ووٹوں کو لام بند کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ یہ ایک طرح سے 2024 کے عام انتخابات کی تیاری ہے۔اور یہ بھی اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہے، کہ بی جے پی مسلمانوں کی حمایت کے بغیر بھی اقتدر میں آسکتی ہے اور وہ اب یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ سکھوں اور جاٹ کسانوں کے بغیر بھی میدان مار سکتی ہے اور ہندو فرقہ پرستی کو بھنانے میں اب انکو کوئی عار نہیں ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)