مولانا عبد الحمید نعمانی
گزشتہ کچھ عرصے سے جہاں ملک کو ایک مخصوص سمت میں لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ وہیں ،بہتر شبیہ والے بڑے ،چھوٹے تعلیمی اداروں کو بھی فرقہ وارانہ راہ پر لے جانے کی بھی مسلسل مہم چلائی جا رہی ہے ، اعلی تعلیم مراکز میں جواہر لعل نہرو یو نی ورسٹی بھی ہے ، ملک کے فرقہ پرست عناصر کو ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام کے ساتھ ان کے فکرو عمل سے بڑی نفرت اور چڑ سی ہے ۔ اس کی سطح اس قدر پست ہو گئی ہے کہ آزادی کے امرت مہوتسو کے اشتہار سے بھی پنڈت نہرو کی تصویر غائب ہے ۔
ظاہر ہے کہ یہ عمل ، تنگ نظری پر مبنی ہے ۔ ان کے مقابلے میں ،ساورکر وغیرہ کی تصویر بہت نمایاں طور سے لگائی گئی ہے۔ پنڈت نہرو کی آزادی کی تحریک میں دیگر حضرات سے خدمات اور کارنامے کم نہیں ہیں ، ویسے بھی جس طرح سبھاش چندر بوس ، بھگت سنگھ ، ڈاکٹر امبیڈکر وغیرہم کا حوالہ بالکل غلط طریقے سے پس منظر سے کاٹ کر دیا جارہا ہے ۔ ان کے فکرو عمل سے ہندو تو اور سنگھ کی فرقہ پرستانہ تحریک سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ۔
تحریک آزادی کی تقریب کے تناظر میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا نام محض دلتوں کو رجھانے اور ووٹ کی سیاست کے زیر اثر دیا گیا ہے ۔ ورنہ پنڈت نہرو اور مولانا آزادؒ کی تحریک آزادی میں حصے داری اور شرکت کے حوالے سے کوئی زیادہ مطلب نہیں ہے۔11-1910 ء کے بعد ساورکر کا تحریک آزادی کے متعلق رول پوری طرح بدل گیا تھا اور گزرتے دنوں کے ساتھ مکردہ اور معافی سے داغدار ہو کر جس شکل میں سامنے آیا اس سے ہر کوئی واقف ہے ۔
پنڈت نہرو کے کچھ افکارو اعمال سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن کردارکشی اور وطنی و سماجی منظر نامے سے نہرو کے کردار کو باہر کر دینے کی مہم سرا سر بزدلی، تنگ نظر ی اور بد دیانتی ہے ۔ اس کے کچھ نمونے ملک کی معروف یونیورسٹی جواہر لعل نہرو کی شبیہ بگاڑنے کے سلسلے میں گزشتہ کچھ برسوں سے سامنے آرہے ہیں ۔ گرچہ پہلے بھی جے ین یو، فرقہ پرست ہندوتووادی عناصر کے نشانے پر رہی ہے تاہم جس طرح گزشتہ کچھ برسوں سے اس کی شبیہ بگاڑنے اور مکردہ شکل میں پیش کرنے کی مہم شروع کی گئی ہے ۔ وہ تشویشناک ہونے کے ساتھ بھارت کی بہتر تکثیری روایات کے لیے تباہ کن بھی ہے ۔
یونیورسٹی کو اس کی تاریخ و روایت اور مقاصد کے بر خلا ف سمت میں لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس سے جس طرح نظر انداز کردہ مختلف غریب محنت کش طبقات کے افراد نے بھی فیض و فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک ،بیرون ملک کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی نمائندگی درج کرائی ہے ۔ اس نے تفریق پسند ،جات پات کے حامل تفوق نواز عناصر کو بے چینی و اذیت میں مبتلا کر دیا ہے ۔ وہ گزشتہ عرصہ سے منظم طریقے سے جے این یو کو اپنے ڈھب پر لانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔ یہ اقتدار کے زیر سایہ ذرائع ابلاغ اوراقتدار ی طبقے کے توسط سے اعلی تعلیمی اداروں پر حملے کا حصہ ہے ۔ دانشوری ،انسانی اقدار اور آزادی کے حوالے سے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا پوری دنیا میں ایک بڑا نام ہے اس کی کئی طرح کی خصوصیات بھی ہیں۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، تعلیم اور جدو جہد کی اچھی مثال ہے ۔ یہ تفوق پسند طبقاتی نظام کے حامی عناصر کے لیے کبھی بھی قابل قبول نہیں رہاہے ۔ ان کا من پسند طرز حیات کے متعلق اقتداری غلبے اور سرکار کی تشکیل کے ساتھ ہی امید بر آتی معلوم ہو تی ہے،9فروری 2016ء کے حملے اور اس سے پہلے اور بعد سے اب تک کے نظریاتی سطح پر یو نیورسٹی کے کردار کو بدلنے کی سعی نا مشکور کی جارہی ہے اور سارا کچھ راشٹر واد اور ہندستانی سنسکرتی کے نام پر کیا جا رہا ہے ۔ جب کہ بذات خود جے این یو کا ایک تہذیبی و سماجی اور تعلیمی رویہ ،روایت اور وراثت ہے ۔ اس کے قیام کے پس پشت ایک نظر یہ و فکر کار فرماتھا ۔ جواہر لعل نہرو کے وژن کے پیش نظر اندرا گاندھی سرکار نے سائنسی سوچ اور ترقی پسند ماحول سازی کے مقصد کے تحت جون 1969ء میں یو نیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تھا،ملک میں یو نیورسٹیاں تو بہت سی ہیں ،لیکن نہرو کے خوابوں کی یونیورسٹی کے قیام کے کچھ خاص مقاصد و اغراض تھے ۔ ان کے گزرتے دنوں کے ساتھ اثرات و نتائج بھی مرتب و برآمد ہوئے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اشتراکی دانشورں اور اہل علم کا جے این یو سے خاص طورسے وابستگی رہی ہے اس کے پیش نظر ان کا اثر بھی رہا ہے ۔
تاہم وہ جمہور عوام ،جو ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں کے تعلیمی ادارے کے طور پر زیادہ متعارف و منسوب رہی ہے ۔ یہ ماحول بنانے میں اس کے اساتذہ ، طلبہ اور مختلف شعبے کے عملے کا تعاون و دخل رہا ہے ۔ وہاں کی طلبہ تنظیم کی ایک خاص اہمیت ہے ۔ جے این یو ملک کی واحد یو نیورسٹی ہے جس کی طلبہ تنظیم کا باقاعدہ دستور ہے ۔ اس میں بھی کو ئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ یو نیورسٹی نے نہرو کے خوابوں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مبنی اقدار و روایات اور مسلک انسانیت کو آگے بڑھانے اور فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جب کہ ملک میں اقتدار اور اس سے باہر ایک طاقتور دائیں بازو طبقے کو نہرو کی شخصیت اور نام وکام سے شدید معاندت و غیریت رہی ہے ۔ وہ ہر قیمت پر نہرو اور ان کے نام پر قائم یونیورسٹی کے کردار اور تصور و تصویر کومسخ اور بدل دینے کے لیے کوشاں ہے اور بدلتے سیاسی و سماجی حالات میں متعلقہ تفوق پسند عناصر کو اپنے ارادے کی تکمیل کی راہ ہموار ہوتی نظر آرہی ہے بلکہ کہیے کہ موقع مل گیا ہے اختلاف رکھنے والوں کی شبیہ کو مکردہ شکل میں پیش کر نا اور فرقہ وارانہ جہات کو نمایاں کر کے اکثریت کو گمراہ کر کے خود کو امن و انسانیت پسند کے طور پر سامنے لانا بھی ہے ۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی فوائد کے حصول کے لیے بھارت میں فرقہ پرستی بڑی معاون و موثر ثابت ہوئی ہے دیگر کے برے دن میں اپنے اچھے دنوں کی تلاش بھارت کے بنیا وادی عناصر اور سماج کے لیے بڑی مفید و موافق ہے ، دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر مختلف قسم کی دہشت پسند یوں کا کھیل بڑا نفع بخش ثابت ہوا ہے ۔ جب ہر جگہ یہ کھیل چل رہا ہے تو تعلیمی اداروں کو نفع بخش کاروبار سے محروم رکھنے کو مزعومہ راشٹر واد کے منافی سمجھا جا رہا ہے ۔ اس کے مد نظر جے این یو میں اطلاعات کے مطابق کچھ ایسے عنوانات پر تحقیقی کام کے نام سے پروجیکٹ کو منظوری دی گی ہے ۔ جو ہندوتو کے تفوق اور اس کے برعکس نظریات اور طرز حیات، سوالات کی زد میں آجاتے ہیں ، پروجیکٹ کے تحقیقی کام کے عنوان سے ہی ذہن و جہت کا پتا چل جاتا ہے کہ منزل کیا ہے ؟سلفی جہادی :برصغیر ہند میں خطرات اور ہندستان کی پالیسی سازی میں در پیش حال اور مستقبل کے چیلنجزکے عنوان ہی سے راستہ اور منزل کاپورا نقشہ سامنے آجاتا ہے ملک اور عالمی سطح پر بڑھتے اسلامو فوبیا اور نئے مسلم زاویوں کی تلاش میں، فرقہ وارانہ سوچ پوری طرح نمایاں نظر آتی ہے ، جہاد کے کچھ مخصوص مفاہیم و شرائط ،وقت ، مقام اور فرد کے حوالے سے فساد کے خاتمے اور ایک تعمیری عمل ہے ، مگر فسادی عناصر اصل جہادی مقاصد کو نظر انداز کر کے اسے دہشت گردی سے نتھی کر کے جہادی دہشت گردی کے عنوان سے متعارف کرا رہے ہیں اور حد یہ ہے کہ جہادی دہشت گردی کو مذہبی دہشت گردی کی واحد شکل قرار دیا جا رہا ہے ۔
یہ خوش آئند اور امید کی بات ہے کہ فرقہ وارانہ اتحاد میں یقین رکھنے والے عوام اور دانشور فرقہ پرستانہ پروجیکٹ کی مخالفت کر رہے ہیں اور اسے نفر ت پھیلانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی جیسی تعلیمی مرکز میں اس طرح کے فرقہ وارانہ کو رس پڑھانے کی اجازت کے خلاف نظر آرہے ہیں ۔ کسی ایک مذہب اور کمیونٹی کے حوالے سے دہشت گردانہ سرگرمیوں پر تحقیق کرانے کے سماج پر یقینی طور پر مضر اثرات ونتائج ہوں گے اور وہ بھی پنڈت نہرو کے نام پر اس طرح کی نالائقی اور ناانصافی کا کوئی مطلب نہیں ہے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)