تہران :(ایجنسی)
نومبر 2020 میں ایران کے سب سے اہم جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے قافلے پر فائرنگ ہوئی۔ انھیں مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلائی جانے والی ایک ریموٹ کنٹرول مشین گن سے قتل کر دیا گیا۔
کسی بھی سویلین ہلاکت کے بغیر ایک متحرک ہدف کو اس طرح سرجیکل انداز میں مارنے کے لیے لمحہ بہ لمحہ انٹیلیجنس کی ضرورت پڑتی ہے۔ محسن فخری زادہ کے قتل کے بعد ایران کے انٹیلیجنس کے وزیر محمود علوی نے دعویٰ کیا کہ جس مقام پر محسن فخری زادہ کو گولیاں ماری گئیں، دو ماہ قبل انھوں نے سکیورٹی فورسز کو بالکل اسی جگہ پر ان پر قاتلانہ حملے کے منصوبے کے متعلق خبردار کیا تھا۔
علوی کا کہنا تھا کہ قتل کی منصوبہ بندی کرنے والا شخص ’مسلح افواج کا رکن تھا اور ہم مسلح افواج کے خلاف انٹیلیجنس آپریشن نہیں کر سکتے تھے۔‘ لیکن انھوں نے یہ اشارہ دیا کہ مجرم، ایران کی سب سے اعلیٰ فوجی یونٹ پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) کا رکن تھا۔ اگر ایسا ہے تو یقیناً وہ ایجنٹ آئی آر جی سی میں کافی اونچے عہدے پر فائز ہو گا تبھی وارننگ کے باوجود وہ مقررہ تاریخ، وقت اور مقام پر محسن فخری زادہ کے قتل کے منصوبے کو انجام دینے کے قابل ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ محسن فخر زادہ بھی آئی آر جی سی کے رکن رہے ہیں۔ تہران میں ایوین جیل سکیورٹی کا وہ وارڈ، جہاں ایسے مجرموں کو رکھا جاتا ہے جن پر دوسرے ممالک کے لیے جاسوسی کا الزام ہو، اس کے اندر موجود ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہاں آئی آر جی سی کے کئی اعلیٰ کمانڈر قید ہیں۔ ایرانی حکومت، پاسداران انقلاب کی ساکھ کو بچانے کے لیے ان افراد کے ناموں اور عہدوں کی تشہیر نہیں کرتی۔
آئی آر جی سی قدس فورس (بیرونِ ملک آپریشن کرنے والا یونٹ) کے ایک سابق انٹیلیجنس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ غیر ملکی ایجنسیوں نے متعدد ایرانی سفیروں اور آئی آر جی سی کمانڈروں کے خلاف شواہد اکٹھے کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں خواتین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں معلومات بھی شامل ہیں، جسے استعمال کرتے ہوئے وہ ان اہلکاروں کو بلیک میل کر کے غیر ملکی جاسوسوں کے ساتھ تعاون پر مجبور کر سکتے ہیں۔
جنوری 2018 کے آخر میں چند نامعلوم افراد نے تہران سے 20 میل (30 کلومیٹر) کے فاصلے پر واقع صنعتی زون میں ایک گودام کے دروازے توڑ ڈالے۔
وہاں 32 تجوریاں تھی، لیکن وہ جانتے تھے کہ ان کے مطلب کا سامان کس تجوری میں موجود ہے۔ انھوں نے سات گھنٹے سے بھی کم وقت میں 27 تجوریوں کے تالے توڑ کر ایسے ہزاروں نقشے، مسودے اور سی ڈیز چوری کر لیں جن میں ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات موجود تھیں۔
یہ ایران کی تاریخ میں سب سے بڑی ڈکیتی تھی لیکن حکام خاموش رہے۔
اس خفیہ کارروائی کے تین ماہ بعد یہی چوری شدہ دستاویزات 1220 میل (2000 کلومیٹر) دور اسرائیل کے شہر تل ابیب میں منظرِ عام پر لائی گئیں۔
اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے درجنوں دستاویزات اور سی ڈیز کی رونمائی کی جو اُن کے بقول موساد کے ایجنٹ تہران سے چوری کر کے اسرائیل لائے تھے۔
اپریل 2018 میں خصوصی طور پر بلائی گئی نیوز کانفرنس میں یہ دستاویزات دکھاتے ہوئے، بنیامن نیتن یاہو نے سب کو ایک نام یاد رکھنے کو کہا اور وہ تھا محسن فخری زادہ کا نام۔ انھوں نے دہرایا ’ڈاکٹر محسن فخر زادہ۔۔۔ یہ نام یاد رکھیں۔‘ دو سال بعد محسن فخر زادہ کو قتل کر دیا گیا۔
اس وقت ایران کے اعلیٰ عہدیداروں نے اسرائیل کے اس دعوے کو ’جھوٹا‘ اور دستاویزات کو ’جعلی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ لیکن بعد میں اپنی صدارت کے آخری دن اگست 2021 کو صدر حسن روحانی نے تصدیق کی کہ اسرائیل نے ایران کی جوہری دستاویزات چرائیں ہیں اور انھوں نے اس کے ثبوت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دکھائے تھے۔