نئی دہلی ۲۰ ستمبر : سپریم کورٹ نے جمعہ کو مغربی بنگال میں بعد از انتخابات تشدد کے مقدمات کو صوبےسے باہر منتقل کرنے کی درخواست پر سی بی آئی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ عدالت نے درخواست میں مغربی بنگال کی عدالتوں پر لگائے گئے بے ہودہ الزامات پر ناراضی کا اظہار کیا۔واضح ہو کہ سی بی آئی نے سپریم کورٹ سے یہ درخواست کی تھی کہ مغربی بنگال کی عدالتوں میں جاری 45 مقدمات کو صوبے سے باہر دوسری عدالتوں میں منتقل کردیا جائے جن میں دو سو سے زائد افراد ماخوذ ہیں ۔ ان میں ان تیرہ مسلمانوں کا بھی مقدمہ ہے جن کو انتخاب کے بعد ہوئےتشدد کا ملزم بنا یا گیا تھا ۔ ان کا مقدمہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کی ہدایت پر لڑا جارہا ہے اور جمعیۃ کی کوشش سے رواں سال 4؍جنوری 2024ء کو سپریم کورٹ نے ضمانت منظور کرلی تھی ۔ صورت واقعہ یہ ہے کہ 02 مئی 2021 کی شام 8 بجے متوفی ہرن ادھیکاری کو سیاسی عداوت کے سبب مارا پیٹاگیا، جس کی تاب نہ لاکر اس نے دم توڑ دیا۔ بعد میں پولس نے قربان، یونس، ہمایوں، رقیب ملا، عثمان ملا، معین الدین،ممریز ملا، ریشما ملا، سپریا بی بی، سراجل، سیف القاضی، داؤدعلی ملا سمیت 17 ملزمان کے خلاف مقدمہ دائر کیا، ان میں کچھ ملزمان نے ضلع عدالت سے پیشگی ضمانت لے لی تھی۔ 25 جون 2022 کو کلکتہ ہائی کورٹ نے سی بی آئی کی سفارش پر بروئی پور ضلع مجسٹریٹ کی عدالت کے ذریعہ پیشگی ضمانت کو کالعدم کردیا تھا، حالاں کہ یہ فساد دو بی جے پی اور ٹی ایم سی کے کارکنان کی سیاسی عداوت کا نتیجہ تھا، لیکن فرقہ پرست عناصر نے اسے ہندو مسلم رنگ دے کر علاقے میں نہ صرف نفرت کی فضا ہموار کرنے کی کوشش کی، بلکہ اس کے نتیجے میں یک طرفہ طور پر غریب بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان غریب ملزمین کے اہل خانہ کی گزارش پر جمعیتہ کے وکلاء نے نومبر2022 میں سپریم کورٹ میں اسپیشل پٹیشن A Nos.10830-10834/2022 داخل کی، سپریم کورٹ نے پہلی سماعت میں ہی ملزمین کو عارضی طور پر پروٹیکشن دے دیا تھا کہ سی بی آئی انھیں گرفتار نہیں کرے گی، لیکن حسب ضرورت پوچھ تاچھ کے لیے طلب کرسکتی ہے بالآخر 4؍ جنوری کو اپنے حتمی فیصلے میں سپریم کورٹ نے ملزمین کی مستقل ضمانت منظورکرلی۔ میں سپریم کورٹ میں جمعیۃ کی طرف سے ایڈوکیٹ سید مہدی امام اور ایڈوکیٹ محمد نوراللہ پیروی کررہے ہیں ۔ جب کہ مرکزی دفتر جمعیۃ سے ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی کی قانونی نگرانی اور ریاستی جمعیۃ مغربی بنگال کے صدر مولانا صدیق اللہ چودھری اور ناظم اعلی مفتی عبدالسلام قاسمی متاثرین سے رابطے میں ہیں ۔
لیکن سی بی آئی نے سپریم کورٹ میں یہ عرضی داخل کی تھی کہ اس مقدمہ کو بھی ریاست سے باہر منتقل کرنے کا حکم دیا جائے ۔اس سلسلے میں اپنی دلیل میں سی بی آئی نے ایک حیرت انگیز استدلال یہ کیا کہ مغربی بنگال کی عدالتیں انصاف نہیں کرتیں اور وہاں عدالتیں عناد پر مبنی فیصلے کررہی ہیں ۔ عدالت کے خلاف اس طرح کا تبصرہ سن کر سخت ناراضی کا اظہار کرتےجسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس پنکج متھل پر مشتمل بنچ نے معاملے کی سماعت کے دوران سی بی آئی کے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،مسٹر راجو، یہ کس قسم کی باتیں ہیں کہ مغربی بنگال کی تمام عدالتوں کا رویہ معاندانہ ہے؟ یعنی آپ دعوی کررہےہیں کہ عدالتیں غیر قانونی طور پر سماعت کررہی ہے۔ یہ پورے عدالتی نظام پر شک کرنے کے مترادف ہے۔”
ایس وی راجو نے تسلیم کیا کہ عرضی میں خامی ہے ، اس لیے اس میں ترمیم کی اجازت دی جائے، عدالت نے صاف کہا کہ یہ عرضی خارج کی جاتی ہے اور صرف عذداری نہیں چلے گی بلکہ تحریری معافی مانگنی ہو گی ۔جسٹس اوکا نے کہا کہ آپ کے افسران کو کسی عدالتی افسر یا کسی ریاست کے بارے میں ذاتی طور پر ناگواری ہو سکتی ہے، لیکن یہ کہنا کہ پوری عدلیہ بے ایمان ہے ، بہت نازیبا بات ہے۔ ضلعی ججز اور سول ججز یہاں آ کر اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔دریں اثنا صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کلکتہ فساد میں ناحق پکڑے گئے لوگوں کے لیے انصاف کی لڑائی جارے رکھنے کا عزم ظاہر کیا اور کہا کہ حیرت ہے کہ اس معاملے میں سی بی آئی کی سفارش پر کلکتہ ہائی کورٹ نے ان لوگوں کی ضمانت عرضی خارج کردی تھی ، ہمارے وکلاء نے سپریم کورٹ سے ضمانت حاصل کی ۔ امر حیرت ہے کہ پھر بھی سی بی آئی کو مغربی بنگال کی عدالت پر شبہ ہے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ عدلیہ کا نظام بہر صورت مستحکم ہونا چاہیے ، کسی بھی عدالت کی حکمرانی یہ نہیں ہے کہ وہ بے قصوروں کو تختہ دار پرچڑھا دے اور اسے انصا ف کا نام دے دیا جائے بلکہ عدالت کی فتح اس وقت ہوگی جب کہ ہرین ادھیکاری کے اصلی قاتل کو سزا دی جائے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے اپنی کوششوں سے ملک کو طاقت پہنچائی ہے۔ ہمارے ملک کی عظمت اس بات میں ہے کہ ہر شخص تک انصاف کی رسائی ہو-