ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کی پیچیدگیوں کے بیچ، ایرانی صدر مسعود پزشکیان منگل کے روز عمان کے دورے پر دار الحکومت مسقط پہنچے۔ اگرچہ اس دورے کا بظاہر مقصد دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون اور دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانا بتایا جا رہا ہے، تاہم ایران کے بعض ذرائع ابلاغ اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کے پس پردہ حقیقی مقصد اس سے کہیں زیادہ اہم اور سیاسی نوعیت کا ہے۔
معروف تجزیہ نگار احمد زید آبادی نے ایرانی اخبار "ہم میہن” میں اس دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے عمان کی جانب سے تہران اور واشنگٹن کے درمیان ثالثی کی کوششوں کو اس کا اصل محرک قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ جوہری مسئلہ، بالخصوص یورینیم کی افزودگی، اس وقت کسی بھی ممکنہ پیش رفت کی سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔
اگرچہ ایرانی حکومت نے پزشکیان کے دورے کو صرف اقتصادی تعاون کی کوشش قرار دیا ہے، تاہم اخبار کے مطابق اصل توجہ اس وقت عمانی وزیر خارجہ بدر البوسعدی کی جانب سے دی گئی تجاویز پر مرکوز ہے۔ یہ تجاویز گزشتہ جمعے کو روم میں ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے پانچویں بالواسطہ مذاکراتی دور میں پیش کی گئی تھیں۔
افزودگی کی گتھی
گزشتہ دور کے دوران یورینیم کی افزودگی کا مسئلہ شدت سے سامنے آیا، جس پر ایران اور امریکہ کے موقف میں سخت جمود دیکھا گیا۔ بعض مبصرین کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لیے دو تجاویز زیر غور آئیں۔ پہلی تو "عارضی معاہدے” کی تجویز، جس کے تحت ایران یورینیم کی افزودگی کو معطل کرے گا اور اس کے بدلے میں امریکہ کچھ پابندیاں نرم کرے گا … اور دوسری تجویز ایک "بین الاقوامی کنسورشیم” کے قیام کی تھی، جو علاقائی ممالک کی شرکت سے افزودگی کے عمل کو انجام دے گا۔تاہم دونوں تجاویز کو بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ عارضی معاہدے کو نہ ایران میں عوامی و سیاسی قبولیت حاصل ہے اور نہ امریکہ میں، جب کہ کنسورشیم کا خیال قانونی حیثیت اور جغرافیائی محل وقوع کے اختلافات کی وجہ سے اپنی کشش کھو چکا ہے۔
گرچہ صورت حال غیر یقینی ہے، مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات توجہ طلب ہیں، جن میں انھوں نے کہا ہے کہ بات چیت مثبت انداز میں جاری ہے۔اس پس منظر میں عمان پر نظریں مرکوز ہو گئی ہیں کہ آیا وہ اس پیچیدہ مسئلے میں کوئی بڑی پیش رفت ممکن بنا سکتا ہے یا نہیں، خاص طور پر جب کہ دونوں فریقین اپنے بنیادی موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ بالخصوص یورینیم کی افزودگی کے مسئلے پر، جو اس تنازع کا مرکزی نقطہ بن چکا ہے۔