عبدالسلام عاصم
اگرالگ الگ مذہبی شناخت رکھنے والے بظاہر دہشت گردوں یا ماب لنچروں سے ظلم سے باز آ جانے کو کہا جائے اور جواب میں وہ ماضی کے ایسے ہی واقعات پرسائل کی مبینہ خاموشی کا جواز پوچھنے لگیں تو سمجھ لیں شعور کی بات کرنے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے اور اب منظر نامے کو صرف وہ نتائج بدل سکتے ہیں جنہیں اپنی انتہا تک مرتب ہونا ہے۔ شعور کی بات تعلیم یافتہ لوگ کرتے اور سمجھتے ہیں، نظریات کے اسیران نہیں۔
جذباتی یقین اور اندھی تقلید کے عہد سے وہ سبھی اقوام گزر چکی ہیں جو آج جستجو اور شہادت کی بنیاد پر کائنات کی تسخیر کی اُس راہ پر گامزن ہیں جس پر چلنے کیلئے دنیا کے اولین انسان کو زمیں پر اتارا گیا تھا۔ حالات کے تازہ موڑ پرجو پسماندہ اقوام بدستوریمینی اور یساری نگاہوں یعنی ایک آنکھ سے سب کچھ دیکھنے کی عادی چلی آرہی ہیں وہ ہر خسارے کو آزمائش کا نام دے کر اس سے اتفاق کرلیتی ہیں۔ کہیں اِسے فطرت کے تقاضے کا تو کہیں مصلحتِ خداوندی کا نام دے دیا جاتا ہے۔
وطن عزیز میں اِن دنوں ایک طرف جہاں ماب لنچنگ کی مذمت کو ماضی کے ایسے ہی واقعات پرعصری متاثر حلقے کی خاموشی سے جوڑ دیا گیا ہے، وہیں دوسری جانب مذہب بدلنے/بدلوانے کے نئے پرانے واقعات کے حوالے سے گرفتاریوں کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔ حسب توفیق، تحریک اور ترغیب ایک دوسرے کا مذہب اختیار کرنے کا یہ منظر نامہ نیا بالکل نہیں۔ دہائیوں سے جاری اس سلسلے کو کہیں تبدیلی تو کہیں گھر واپسی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس ایک جیسے اس منظر نامے میں مذہب کی روایتی تبدیلی سے ابتک انسانی زندگی کے حق میں کوئی ایسا انقلاب برپا نہیں ہوا جس کی دستاویزادعائیت سے ہٹ کر مرتب کی گئی ہو۔ معراجِ انسانیت کے رُخ پر کسی حقیقی تبدیلی کے اسباب ویسے بھی مذہب بدلنے سے مرتب نہیں کئے جا سکتے۔ گویا اِن بظاہر تبدیلیوں سے خدائے بخشندہ کی دی ہوئی زندگی میں بباطن کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ البتہ ایسی تبدیلیاں کل بھی موجب نزاع رہیں اور آج بھی ان کی وجہ سے حشر سے پہلے حشر برپا ہے۔
کاش تقسیم کے موڑ سے گزرنے سے پہلے ہمیں مذہب کی جگہ جینے کا ڈھب بدلنے کی تحریک مل گئی ہوتی تو آج ہمارے فروعی اختلافات یوں سر چڑھ کر نہیں بولتے اور ہم انسانوں کو اُن کے کردار کے بجائے اُن کی بائی ڈیفالٹ پہچان کی بنیاد پر نہیں تولتے۔ جس فرق کی پہچان بطن مادر سے پیدا ہونے والا اپنی مرضی سے قائم نہیں کرتا اُس کی مدافعت اور مخالفت میں عمر عزیز کے قیمتی سرمائے کا یہ زیاں کب تک جاری رہے گایہ وقت بتائے گا! ہمیں صرف اس پر قابو پانے کی مہذب کوششیں کرنا ہیں۔ حالات کیسے قابو میں آئیں گے! اس پر غور کرنے کیلئے ہم سب کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے تاکہ نسل در نسل ہم جس طرح یک طرفہ سوچ کی راہ پر آگے بڑھ رہے ہیں وہ سلسلہ مرحلہ واررُک سکے۔
بدقسمتی سے ہم نے غلط تشریحات کی بنیاد پر اپنی ہر پسند کو رضائے حق قرار دے کر زندگی کے تقدس کو پامال کرنے کی ایک ایسی راہ ہموار کر دی ہے جس کی زینت صرف انسانی خون سے کی جا سکتی ہے۔ ہمارا یہ رویہ بساطِ آخرت بچھانے کے آفاقی مقصد سے بری طرح متصادم ہے۔ انسان دنیا میں جس اطاعت کیلئے آیا ہے اس کا عملاً تعلق درد ِدل سے ہے، فرشتوں کی طرح ہر دم بس آداب بجا لاتے رہنے سے نہیں:۔
درد ِدل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
وقت آگیا ہے کہ اب ہم ایسی ساری لڑائیوں سے تائب ہو جائیں جن میں برائیوں کی شکست کی جگہ صرف انسانی جانوں کا زیاں ہو رہا ہے۔ ایک طرف ذہنی بلوغت کی کمی اور جسمانی بلوغت کے بے قابو ہوجانے سے غیر منصوبہ بند طریقے سے بکثرت بچے پیدا ہو رہے ہیں، دوسری طرف انہی بچوں کو منظم فسادات میں بے دریغ طریقے سے یتیم بنایا جا رہا ہے۔ یہ منظر نامہ برصغیر کا ہی نہیں، دنیا کے اُن تمام متاثر حلقوں کا ہے جہاں زندگی کے تقدس پر کہیں عظمتِ رفتہ کو تو کہیں خیالی طور پر طے شدہ مستقبل کو ترجیح دیا جا رہا ہے۔
وطن عزیز میں مذاہب کے ایسے ہی بے جا استحصال کے نتیجے میں سابقہ صدی کے وسط میں مذاہب کے نام پر کچھ گمراہ بچوں نے اپنی ہی ماں کو دولخت کر دیا تھا۔ فطرت نے ایک چوتھائی صدی کے اندر ہی پاکستان کو اس غیر فطری تقسیم کی سزا دیدی۔ ہندستان کی آزادی کے ڈائمنڈ جوبلی سال میں بھی اگر اِس کی یک جہتی اور سلامتی پوری طرح مربوط و مستحکم ہے تو اس کا سہرا اُن ہندستانیوں کے سر بندھتا ہے جن کے نزدیک رنگ اور نسل، ذات اور مذہب/ جو بھی ہے آدمی سے کم تر ہے۔ ایسا نہیں کہ مادر وطن کو کبھی کسی تخریبی بدنگاہی کا سامنا ہی نہیں ہوا۔ علاحدگی پسندی اور انتہاپسندی کی ہر تخریبی کوشش کو ہندستان نے اپنے تعمیری جذبے سے ناکام بنایا ہے۔
ایک حالیہ تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ انسانی نفسیات پر جو حادثات و واقعات گہرا اثر ڈالتے ہیں وہ بھی جینز کے ذریعے اگلی نسل میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ اس کی تفہیم کیلئے مطالعے سے گزرنے والے ایک مقالے کی اِن چند سطروں کا حوالہ دینا ضروری محسوس کرتا ہوں۔ ”نادر روزگار یونانی شاعر ہومر نے اوڈیسی میں ایک ملک کا ذکر کیا جہاں آدھے لوگ وہاں رہتے تھے جہاں سے سورج نکلتا تھا اور آدھے وہاں جہاں سورج غروب ہوتا تھا۔ اس کے بیچ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ ہم بھی دو انتہاؤں پر جی رہے ہیں۔ میانہ روی اور نرمی جسے ہمارے دین (بلکہ بیشتر ادیان) کی اساس قرار دیا گیا وہ ہم میں نہیں رہی۔ ملکی سیاسی معاملہ ہو یا مذہبی ہم اپنے سوا کسی کے موقف کو سننے کے روادار نہیں۔ ہمیں اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ایک کہاوت ہے کہ جو چیز جہاں کھوئی ہو اُسے وہیں تلاش کرنا چاہیے، لہٰذا ہمیں اپنی پھولی ہوئی سانسوں کو بحال کرنے کو ذرا رُکنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ ہمارے مسائل اتنے بھی پیچیدہ نہیں کہ اُن کا کوئی حل نہ ہو؟“۔
درونِ ملک جس خلل میں حالیہ دنوں میں شدت آئی ہے اس پر بھی ہم انشائاللہ قابو پالیں گے۔ لیکن اس کے لئے ہمیں اِس ایماندارانہ ادراک سے کام لینا ہو گا کہ ہمارے حکمراں نہ تو ایلین ہیں اور نہ ہی یہ غیر جمہوری طریقے سے ہم پر مسلط کئے گئے ہیں۔ یہ ہمارے ہی گھروں میں پیدا ہوئے ہیں۔ ہماری ہی درسگاہوں / ودیا کیندروں سے فارغ ہوئے ہیں اور ہماری ہی تہذیب کے پروردہ ہیں۔ اگر ہمیں ان کی سوچ، طرز عمل اور ارادوں میں نقص نظر آتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں اپنے گھر کے ماحول، تعلیمی اداروں کے نصاب اور حوالوں تک محدود رہ جانے والی گنگا جمنی تہذیب کو کھنگالنا ہوگا تاکہ ذہنی آلودگیاں ختم ہوں اور زندگی کے ہر فیصلے میں ذہن اور دل کی ہم آہنگی اُس آتم نربھر بھارت (خود انحصار ہندستان) کو عملاً تشکیل دے جو ایک ارب چھتیس کروڑ سے زیادہ ہندستانیوں کا خواب ہے۔
آو!اب ہم بجائے مذہب کے، جینے کا ڈھب بدل کے دیکھتے ہیں
مدتوں دور رہ کے دیکھ لیا، دو گھڑی ساتھ چل کے دیکھتے ہیں
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)