رجیم چینج کا موضوع امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ریپبلیکن پارٹی میں کافی متنازع رہا ہے۔حالانکہ اس سے قبل کئی امریکی صدور یہ خواب دیکھ کر اقتدار سے رخصت ہوگیے،اپنے ایجنٹوں تحریکیں چلائیں مگر ناکام رہے ،دوسرے تمام دنیا اس پر متفق ہے کہ زمین پر فوج اتارے بغیر یہ کوشش نہیں کی جاسکتی اور یہ جوکھم نہ امریکہ مول لے گا اور نہ ہی ایران – اب ٹرمپ نے بھی یہ راگ چھیڑا ہے ،وہ خامنہ ائ کو دیکھنا نہیں چاتے
پچھلے ریپبلیکن صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق میں رجیم چینج پر زور دیا تھا۔ اس کی بنیاد یہ دعویٰ تھا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں جو بعد میں غلط ثابت ہوا۔
اب ریپبلیکن پارٹی کے بہت سے حمایتی رجیم چینج اور مشرق وسطیٰ میں امریکی مداخلت کے حق میں نہیں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران بش کی اس ہی غیر مقبول پالیسی کا فائدہ اٹھایا اور لوگوں سے وعدہ کیا کہ اب کوئی نئی جنگ شروع نہیں کی جائے گی۔تاہم بہت سے روایتی قومی سلامتی کے حامی اور اسرائیلی حملوں کے حامی اب بھی ریپبلکن سیاست کا حصہ ہیں۔
یران کے جوہری تنصیبات پر حملہ صدر ٹرمپ کی جانب سے محض خارجہ پالیسی کی بنیاد پر لیا گیا فیصلہ نہیں تھا۔ انھیں اپنی مقامی سیاست کے تناظر میں ان مسابقتی حلقوں کے درمیان توازن بھی برقرار رکھنا ہے۔چین کی زنہوا نیوز ایجنسی کے سابق صحافی مینگ جنوی لکھتے ہیں کہ ایرانی حکومت اس وقت تک نہیں گرے گی جب تک کہ امریکہ یا اسرائیل مستقبل قریب میں ایران پر زمینی حملہ نہ کر دے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ ایرانی حکومت کو یہ بات تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ حکومت کو قابل اعتماد فضائی دفاعی نظام اور جوابی کارروائی کی صلاحیتیں حاصل کرنے کے لیے ’چین کے ساتھ مکمل تعاون‘ اور ’چینی فوجی جدیدیت پر مکمل انحصار‘ کرنے کی ضرورت ہے۔
چینی اخبار گلوبل ٹائمز نے ننگشیا یونیورسٹی میں چائنا اینڈ عرب ورلڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر نیو شنچن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ گذشتہ ہفتے سے ایران کے خلاف فوجی کارروائیوں میں اسرائیل کو ملنے والی کامیابیاں اسرائیل اور امریکہ دونوں کی ’توقعات سے زیادہ‘ تھیں۔ن کامیابیوں نے واشنگٹن کو یہ یقین دلایا کہ براہ راست مداخلت کے خطرات کم ہو گئے ہیں۔
یہ غیر ملکی مسلط کردہ بغاوتیں، پراکسی جنگیں، اور خفیہ کارروائیاں اب موجودہ واقعات کی ایرانی حکومت کی تشریح کی بنیاد ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنے کے امریکی اسرائیلی منصوبے کی کوئی بھی تجویز بہت سے ایرانیوں کو نہ صرف 1953 کی بغاوت بلکہ عراق، لیبیا اور افغانستان میں امریکی قیادت میں مداخلتوں کی یاد دلاتی ہے۔ سب کچھ آزادی کے وعدوں سے شروع ہوا، لیکن کوئی بھی امن پر ختم نہیں ہوا