تحریر:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
پردہ پر بہت سے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ اسے تمسخر کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ اسے ملاّ کی ایجاد قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اعتراضات اسلامی نظامِ معاشرت کی خصوصیات، اس میں عورت کی حیثیت اور اس کے دائرۂ کار سے ناواقفیت یا تجاہل کا نتیجہ ہیں۔ اسلامی حجاب کے بارے میں قرآن وحدیث کے بیانات ان کے رد کے لیے کافی ہیں ۔
یہاں چند اعتراضات کا جائزہ لیا جارہا ہے، جنہیں پردہ کے مخالفین بہت زوروشور سے پیش کرتے ہیں :
(۱) آزادی سے محروی
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ عورت کو حجاب کا پابند بنانے سے اس کی آزادی سلب ہوتی ہے ، جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔ مرد کی طرح عورت بھی انسانی وجود رکھتی ہے ۔ اس پر کچھ زائد پابندیاں عائد کر دینے سے اس کی انسانیت کی توہین و تذلیل ہوتی ہے۔
اسلام نے عورت کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ مردوں کے سامنے ایک خاص وضع اور خاص لباس میں آئے۔ یہ حکم بعض معاشرتی مصالح کی بنیاد پر دیا گیا ہے، تا کہ لوگوں کے اخلاق پراگندہ نہ ہوں اور معاشرہ میں صنفی انتشار پیدا نہ ہو۔ اسے آزادی یا بنیادی انسانی حقوق پرقدغن نہیں قرار دیا جا سکتا۔ تمام متمدّن معاشروں میں رہن سہن کے خاص طریقوں کی پابندی کی جاتی ہے۔ مثلاً کسی کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ برہنہ ہو کر گھر سے باہر نکلے، یا سونے کا لباس پہن کر کام پر جائے، مگر اس پابندی کو فرد کی آزادی یا بنیادی انسانی حق کے خلاف قرار نہیں دیا جاتا۔ اسلام چاہتا ہے کہ عورت گھر سے باہر نکلے تو اپنے لباس، چال ڈھال اور گفتگو میں وہ طرز اختیار کرے جس سے کسی کے جذبات برانگیختہ نہ ہوں۔ وہ آرائش و زیبائش کے ذریعے لوگوں کی شہوت آمیز نگاہوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کرے۔ اس طرح اسلام اسے ساتر لباس کا پابند بنا کر معاشرہ کے افراد کی نگاہوں میں عزت و احترام کا مقام عطا کرتا ہے۔
(2) عملی سرگرمیوں سے علیٰحدگی
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ پردہ عورت کو زندگی کی مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روک دیتا ہے۔ وہ گھر سے باہر کے کام نہیں انجام دے سکتی۔ اس طرح معاشرہ اپنی نصف آبادی کی فطری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہو جا تا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ صرف اسلام ہی عورت کی فطری صلاحیتوں سے صحیح طریقے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ کوئی بھی نظام اسی وقت ترقی کرسکتا ہے جب اس میں کاموں کی تقسیم مناسب ڈھنگ سے ہو اور جس کے ذمّے جو کام لگایا جائے وہ پوری امانت داری اور محنت سے انجام دے۔ اگر ہرشخص ہر کام انجام دینے لگے تو نظام میں خلل وفساد ناگزیر ہے۔ کوئی تجارتی کمپنی اسی وقت صحیح ڈھنگ سے چل سکتی ہے جب اس کے ملازمین میں سے کچھ لوگ اچھی سے اچھی مصنوعات تیار کرنے میں لگے ہیں اور کچھ دوسرے لوگ مارکیٹ میں اس کی پبلسٹی اور نکاسی کے لیے جدّوجہد کریں۔ اگر اس کمپنی کا ہر ملازم ہر کام اپنے ذمہ لے لے تو وہ ایک دن بھی نہیں چل سکتی ۔ اسی طرح نظامِ تمدن کو چلانے کے لیے اللہ تعالی نے مرداور عورت کے درمیان کاموں کو تقسیم کر دیا ہے۔ عورت کو گھر کے اندر کے کاموں کی ذمہ داری دی گئی ہے اور مردکو گھر کے باہر کے کاموں کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ بچوں کی پیدائش اور پرورش و پرداخت ایسا کام ہے جسے صرف عورت ہی انجام دیتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بڑی زیادتی ہوگی کہ اس طویل المیعاد اور محنت طلب کام سے تو اسے چھٹکارانہ ملے۔ اس کے ساتھ گھر سے باہر کے بھی بہت سے کام اس کے ذمے لگادیے جائیں۔ اسی لیے اسلام نے عورت کو معاشی جدّوجہد سے آزادرکھا ہے اورنفقہ کی ذمہ داری کلّیۃً مرد پر عائد کی ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام عورت کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہی نہیں دیتا ہے اور اسے معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے کلّیۃً روکتا ہے ۔ وقتِ ضرورت عورتوں کے لیے گھر سے باہر نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشادفرمایا ہے:”اللہ تعالیٰ نے تم (عورتوں) کو اجازت دی ہے کہ اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر جا سکتی ہو۔“ (بخاری)
عہدِ نبوی میں بہت سی صحابیات گھر سے باہر کے کاموں، مثلاً کھیتی باڑی، صنعت و حرفت اور تجارت وغیرہ میں اپنے شوہروں کی معاونت کرتی تھیں اور غزوات میں شریک ہو کر زخمیوں کو پانی پلانے اور مرہم پٹی کرنے کی خدمت انجام دیتی تھیں۔
اسلام عورت کو ہر طرح کے معاشرتی، معاشی اور تمدّنی حقوق عطا کرتا ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتی ہے، وقت ضرورت کسبِ معاش کرسکتی ہے، اپنا سرمایہ تجارت میں لگا سکتی ہے، علم وثقافت کے فروغ میں حصہ لے سکتی ہے، اجتماعی مفاد کے لیے اپنی خدمات پیش کرسکتی ہے۔ لیکن اسلام عورت کو شمعِ محفل نہیں بنانا چاہتا۔ وہ مرد و زَن کا آزادانہ اختلاط سخت نا پسند کرتا ہے۔ اس لیے کہ یہ چیز اس کے نظام ِ معاشرت سے قطعاً میل نہیں کھاتی۔
(۳) میلان میں اضافہ
حجاب کے سلسلے میں ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان آزادانہ اختلاط پر پابندی عائد کرنے سے عورتوں کی جانب مردوں کے میلان اور رغبت میں اضافہ ہوتا ہے۔اس لیے کہ کسی چیز سے روک دینے سے انسان کی حرص اس میں اور بڑھ جاتی ہے۔ اگر نہیں کھلی چھوٹ دے دی جائے تو بہت جلد طبیعتیں سیر ہو جائیں گی اور جذ بات سرد پڑ جائیں گئے ۔
بے پردگی کے حامیوں کا یہ منطقی استدلال بھی خوب ہے۔ اگر سرمایہ داروں کی تجوریوں میں مال و دولت کے ڈھیر دیکھ کر غریب لوگوں کے دلوں میں اس کے حصول کی خواہش پیدا ہو تو کیا مشورہ دینا مناسب ہوگا کہ حفاظت کی تمام تدابیر ختم کردینی چاہییں اور کھلی چھوٹ دے دینی چاہیے کہ جو چاہے جتنا مال اٹھالے جائے۔ اسی تدبیر سے لوگوں کے دلوں سے مال کی رغبت ختم کی جاسکتی ہے؟ کیا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اخلاقی جرائم پر پابندی سے انسانوں میں جرم کرنے کی خواہش ابھرتی ہے۔ اگر ارتکابِ جرائم کی مکمل آزادی دے دی جائے تو تمام جرائم پیشہ افراد پر ہیزگار بن جائیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ انسانی تمدّن کی تاریخ کے کسی دور میں اس منطق کو استعمال نہیں کیا گیا۔
انسان کی فطری خواہشات دو طرح کی ہیں: ایک محدود، جیسے کھانے اور سونے کی خواہشات۔ان کی جب تکمیل ہو جاتی ہے تو ان سے انسان کی رغبت ختم ہو جاتی ہے۔ دوسری خواہشات وہ ہیں جو غیر محدود ہوتی ہیں۔ مثلاً مال کی خواہش،یا جنسی میلان کہ ان سے طبیعت کبھی آسودہ نہیں ہوتی۔ جنسی میلان کے بھی دو پہلو ہیں: ایک جسمانی، دوسرا روحانی۔ جسمانی تسکین تو بسا اوقات ہو جاتی ہے، لیکن روحانی آسودگی کبھی نہیں ہوتی، بلکہ مسلسل ’ھل من مزید‘ کا تقاضا رہتا ہے۔ مردوزَن کے آزادانہ اختلاط کی صورت میں خواہشات میں سکون اور ٹھہراؤ آنے کے بجائے انہیں ہوا ملے گی اور معاشرہ میں مزید بے حیائی اور آوارگی کو فروغ ہوگا۔
یہ بات بھی پورے طور پر صحیح نہیں کہ جس چیز سے انسان کو روکا جاتا ہے اس کی حرص اس کے اندر بڑھ جاتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ایک طرف اسے روکا بھی جائے اور دوسری طرف اس کی رغبت بھی دلائی جائے ۔ لیکن اگر کسی چیز سے روکنے کے ساتھ اس کا ضرر رساں ہونا بھی واضح کیا جائے تو اس کی جانب رغبت پیدا نہیں ہوسکتی۔ آگ میں ہاتھ ڈالنے سے منع کیا جاتا ہے۔ پھر کسی کے دل میں اس کی خواہش کیوں نہیں پیدا ہوتی؟ اس لیے کہ اسے بتایا جاتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے ہاتھ جل جائے گا۔ یہی حال بے پردگی اور آزادانہ اختلاط کا ہے۔ اگر ان کے سماجی، اخلاقی اور دینی مضرّات بتائے جائیں اور ان پر پابندی کی حکمتیں واضح کی جائیں تو لوگوں میں ان کی طرف رغبت پیدانہیں ہوگی۔
بے پردہ معاشرہ
آج مغربی معاشروں میں جو سماجی برائیاں عام ہوگئی ہیں، مثلاً طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان، اغوا اور عصمت دری کے روز افزوں واقعات، بن بیاہی ماوں کی کثرت وغیرہ، ان کے اسباب پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ایک بنیادی سبب بے پردہ معاشرت ہے۔ وہاں عورتیں انتہائی زیب وزینت کے ساتھ بلا روک ٹوک، بے حجابانہ مردوں کے سامنے آتی ہیں۔ اس لئے وہ آسانی سے فتنہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ افسوس کہ مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک نے ہم مسلمانوں کی نگاہوں کو خیرہ کر رکھا ہے اور ہم اپنے آپ کو ترقی یافتہ ظاہر کرنے کے لیے بغیر سوچے تھے ان کی نقّالی کر رہے ہیں۔ کاش ہمیں معلوم ہو کہ اگر عورت کی عصمت کی حفاظت ہوسکتی ہے اور اسے عزّت اور وقار مل سکتا ہے تو صرف اسلام کے سائے میں اور اگر وہ چین و سکون کی زندگی گزارسکتی ہے تو صرف اسلامی تعلیمات پرعمل پیرا ہوکر۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)