اسرائیلی فوج نے غزہ میں کارروائیوں میں ’تیزی لانے اور ان کا دائرہ بڑھانے کے لیے‘ ہزاروں ریزرو فوجیوں کو جنگ کے لیے طلب کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ غزہ میں قید یرغمالیوں کی واپسی اور حماس کے عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے لیے’دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد، حالیہ فوجی کارروائی، اسیروں کی رہائی کی ضمانت دینے میں ناکام رہی ہے اور اس تنازعے کے حوالے سے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کے مقاصد پر سوالیہ نشان ہے۔نتن یاہو پر اکثر یرغمالیوں کے اہل خانہ اور مخالفین کی جانب سے ڈیل کے لیے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے اور سیاسی مقاصد کے لیے جنگ کو طول دینے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے تاہم ان الزامات کی وہ تردید کرتے ہیںاسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ اب نئے علاقوں میں کارروائیاں کرے گی اور زمین کے اوپر اور نیچے موجود ’تمام تنصیبات کو تباہ کر دے گی۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ میں نئے سرے سے فوجی کارروائیوں میں توسیع کی منظوری دے دی ہے۔
لیکن اطلاعات یہی ہیں کہ آئندہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطے کے دورے کے اختتام تک یہ کارروائیاں شروع نہیں ہوں گی۔
بین الاقوامی مذاکرات جنگ بندی اور حماس کے زیر حراست بقیہ 59 یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک نئے معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔
لحماس کے ساتھ دو ماہ کی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اسرائیل کی جانب سے 18 مارچ کو دوبارہ غزہ میں کارروائی شروع کی گئی تھی اور اس کے بعد سے کسی بھی اسرائیلی یرغمالی کو رہا نہیں کیا گیا۔