تحریر: جیریمی بووین
(نوٹ:یہ مضمون حسن نصراللہ کی موت سے ایک دن قبل لکھا گیا )
اسرائیلی رہنما حزب اللہ پر اپنے حملے سے پرجوش نظر آتے ہیں پیجرز اور واکی ٹاکیز میں دھماکوں سے شروع ہونے والی کارروائی اب مہلک فضائی حملوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔
23 ستمبر کو ہونے والے حملے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع Yaav Galant خود کو پیٹھ پر تھپکی دینے سے نہ روک سکے۔انہوں نے کہا، "آج جو کچھ ہوا وہ ایک شاہکار تھا۔” حزب اللہ کے قیام کے بعد سے یہ بدترین ہفتہ ہے۔ نتائج خود اس کی گواہی دیتے ہیں، گیلنٹ نے کہا، ’’فضائی حملوں میں ہزاروں راکٹ تباہ ہوئے۔ یہ راکٹ اسرائیلی شہریوں کو مار سکتے تھے
*اسرائیل کیا چاہتا ہے؟
اسرائیل کا خیال ہے کہ سخت کارروائی کے ذریعے حزب اللہ اپنے منصوبوں کی تکمیل پر مجبور ہوجائے گی اسرائیل اس قدر تکلیف پہنچانا چاہتا ہے کہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ، اس کے اتحادی اور ایرانی حامیوں نے فیصلہ کیا کہ مزاحمت کی قیمت بہت زیادہ ہے۔اسرائیلی لیڈروں اور جرنیلوں کو فتح درکار ہے۔
غزہ میں ایک سال کی جنگ دلدل کی مانند بن چکی ہے۔ حماس کے جنگجو اب بھی سرنگوں سے نکل کر اسرائیلی فوجیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اسرائیلی یرغمالی ابھی تک حماس کی تحویل میں ہیں۔ایک سال قبل حماس نے اسرائیل کو حیران کر دیا تھا۔ اسرائیلیوں نے حماس کو بڑا خطرہ نہیں سمجھا لیکن اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوئے۔
*لیکن لبنان مختلف ہے
اسرائیلی ڈیفنس فورس یعنی IDF اور انٹیلی جنس ایجنسی موساد 2006 کی جنگ کے بعد سے حزب اللہ کے خلاف جنگ چھیڑنے کی تیاری کر رہی تھی۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا خیال ہے کہ موجودہ حملے کے ذریعے حزب اللہ سے طاقت چھیننے کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔
نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ حزب اللہ اسرائیل پر راکٹ داغنا بند کرے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ حزب اللہ کو سرحد سے پیچھے دھکیلنا چاہتی ہے۔ فوج اسرائیل کے لیے خطرہ بننے والے فوجی اڈوں کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
*دوسرا غزہ؟
پچھلے ہفتے لبنان میں جو کچھ ہوا اس نے ایک سال پہلے کی یادیں تازہ کر دیں۔ اسرائیل نے شہریوں کو وارننگ جاری کر دی۔ غزہ میں بھی لوگوں کو حملے کی جگہ سے دور رہنے کو کہا گیا۔
حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کو بھینشانہ بنایا۔اسرائیل کا اصرار ہے کہ اس کی فوج ایک اصولی فوج ہے جو قوانین پر عمل کرتی ہے۔ لیکن دنیا کے ایک بڑے حصے نے غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی کی مذمت کی۔سرحد پر جنگ بڑھنے سے صورتحال مزید سنگین ہوتی جائے گی۔حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ 1980 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی۔ لیکن سرحد پر تازہ ترین جنگ 7 اکتوبر 2023 کے بعد شروع ہوئی۔جب نصر اللہ نے حماس کی حمایت میں محدود لیکن تقریباً روزانہ حملوں کا حکم دیا۔ جس کی وجہ سے اسرائیلی فوج کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ ساتھ سرحدی علاقوں میں رہنے والے تقریباً 60 ہزار لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے، اسرائیل کی جارحیت ایک مفروضے پر مبنی ہے، جس میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وقت آنے پر حزب اللہ کو شکست ہو جائے گی اور اس سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ سرحد پھر اسرائیل فائرنگ بند کر دے گا۔
حزب اللہ کو سمجھنے والے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ یہ نہیں رکے گا۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ حزب اللہ کے وجود کی بنیادی وجہ ہے۔
*حزب اللہ نہ جھکے تو اسرائیل کیا کرے گا؟
اگر حزب اللہ نے شکست تسلیم نہ کی تو اسرائیل جنگ کا دائرہ مزید بڑھا دے گا۔اس کے ساتھ ہی اگر حزب اللہ شمالی اسرائیل پر اپنے حملوں کے ذریعے اسرائیلی شہریوں کی واپسی کی اجازت نہیں دیتی ہے تو نیتن یاہو کی فوج کو زمین سے حملہ کرنے کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔
ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی فوج زمین کے کچھ حصے پر قبضہ بھی کر لے۔
اسرائیل پہلے بھی لبنان میں داخل ہو چکا ہے۔ 1982ء میں اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے حملوں کو روکنے کی کوشش میں بیروت پہنچ گئی۔پھر اسرائیل کے لبنانی اتحادیوں نے بیروت کے صبرا اور شتیلا پناہ گزین کیمپوں میں فلسطینی شہریوں کا قتل عام کیا۔ اس قدم پر بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی اور اس کے بعد اسرائیلی فوج کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
*اسرائیل کا داؤ
ہو سکتا ہے کہ اسرائیل جوا کھیل رہا ہو کہ حزب اللہ یہ تمام ہتھیار استعمال نہیں کرے گی۔یہ سوچ کر کہ اسرائیلی فضائیہ پھر لبنان کے ساتھ وہی کرے گی جو اس نے غزہ کے ساتھ کیا تھا۔ چاہے وہ پورے شہر کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دے یا ہزاروں شہریوں کی ہلاکت۔
ایران بھی نہیں چاہے گا کہ لبنان ہتھیار استعمال کرے
یہ ایک اور جوا ہے۔حزب اللہ ان ہتھیاروں کو اسرائیل کے تباہ کرنے سے پہلے استعمال کرنا چاہے گی۔اگر اسرائیل غزہ میں جاری حملوں اور مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد کے درمیان لبنان میں داخل ہوتا ہے تو وہ تیسرا محاذ کھول دے گا۔ اسرائیلی فوجی متحرک،تربیت یافتہ اور ہتھیاروں سے لیس ہیں، لیکن ایک سال سے جاری جنگ کی وجہ سے وہ تھک گئے ہیں۔بشکریہ بی بی سی ہندی