اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اور دیگر کمانڈروں کو ایک ’ٹارگیٹڈ حملے‘ میں ہلاک کر دیا ہے۔
ایک بیان میں اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اس حملے میں حسن نصر اللہ کے ساتھ حزب اللہ کے جنوبی محاذ کے کمانڈر علی کراکی اور دیگر کمانڈر بھی مارے گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے مطابق اس کی جانب سے حملہ جنوبی بیروت کے علاقے ضاحیہ میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر پر گیا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو نشانہ بنانے سے مہینوں سے جاری کشیدگی میں بڑا اضافہ ہوگا اور یہ لبنانی تنظیم کے حامی ایران کو بھی اشتعال دلانے کی بڑی کوشش ہے۔
اب تک ایران اسرائیل اور حزب اللہ کے تنازع سے بظاہر دور رہا ہے لیکن اب اسلامی ملک کو یہ خطرہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اس کے ایک اہم اتحادی کو منظم طریقے سے نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
بہرحال اسرائیلی فوج نے لبنانی تنظیم حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصر اللہ کی ہلاکت کا سرکاری طور پر اعلان کر دیا۔
جمعے کی شام بیروت کے جنوبی علاقے الضاحیہ میں حزب اللہ کی کمان کے ہیڈ کوارٹر پر اسرائیلی فضائی بم باری کے بعد سے نصر اللہ کے بارے میں کوئی مصدقہ خبر نہیں آئی۔
ادھر اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف ہرتسی ہیلفی نے باور کرایا ہے کہ حسن نصر اللہ کا خاتمہ اسرائیل کو حاصل قدرت اور صلاحیت کا اختتام نہیں ہے۔ ہیلفی نے مزید کہا کہ اسرائیل کا پیغام سادہ ہے جس کا مفہوم ہے کہ "جو کوئی بھی اسرائیلی شہریوں کے لیے خطرہ بنے گا ہم جان لیں گے کہ اس تک کس طرح پہنچنا ہے”۔اس سے قبل حزب اللہ کے قریبی ایک ذریعے نے بتایا تھا کہ جمعے کی شام سے نصر اللہ سے رابطہ ختم ہو چکا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق ایک اسرائیلی سیکورٹی ذریعے کا کہنا ہے کہ "اس حملے میں کسی کا زندہ نکل آنا کرامت ہی ہو سکتی ہے”۔
حسن نصراللہ سنہ 1992 سے حزب اللہ کی سربراہی کر رہے تھے اور انھوں نے اپنی تنظیم میں وفادار کمانڈروں کی تعیناتی کی، جنھوں نے حزب اللہ کو ایک مقامی تنظیم سے بڑی غیر ریاستی طاقت میں تبدیل کر دیا۔
پاسدارانِ انقلاب کی مدد سے حسن نصراللہ کی تنظیم نے میزائلوں کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کیا جو آج بھی کہیں زیرِ زمین موجود ہے۔
لیکن حسن نصراللہ کی غیرموجودگی اور حالیہ دنوں میں حزب اللہ کے سینیئر کمانڈروں کی ہلاکت کے سبب لبنانی تنظیم کی ساکھ اور صلاحیتوں دونوں کو نقصان پہنچا ہے۔اب یقیناً انتقام لینے کے مطالبے سامنے آئیں گے اور تمام نگاہیں انتظار کریں گی کہ حسن نصراللہ کی ہلاکت پر ایران کیا ردِعمل دے گا۔