اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف ایک سال سے جاری بدترین جارحیت کا دائرہ پڑوسی ملک لبنان تک بڑھادیا ہےاور بین الاقوامی مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی توسیع پسندی سے جنم لینے والی کشیدگی تباہ کن عالمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔کیونکہ امریکہ،برطانیہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک مسلسل اسرائیل کو جدیدترین مہلک اسلحہ اور دوسرا فوجی سازوسامان فراہم کررہے ہیںجو اس کے فاشسٹ عزائم کو تقویت دے رہا ہے۔پیر کو اسرائیل کے جنگی طیاروں نے جنوبی اور مشرقی لبنان کے شہری علاقوں پر فلسطینیوں کی حمایتی تنظیم حزب اللہ کی سینئر قیادت کو نشانہ بنانے کے بہانے وحشیانہ بمباری کی جس سے ابتدائی اطلاعات کے مطابق 35بچوں اور 58خواتین سمیت 492افراد شہید اور 1700سے زیادہ زخمی ہوگئے۔اندھا دھند بمباری کے نتیجے میں ہرطرف آگ،دھواں،تباہ ہونے والی عمارتوں کا ملبہ اور گردوغبار پھیل گیا،متاثرہ علاقوں سے لاکھوں افراد کو جانیں بچانے کیلئے محفوظ مقامات کی طرف انخلا کرنا پڑا۔بمباری مشرقی لبنان کی وادی بقا کے علاوہ شامی سرحد کے قریب شمالی علاقوں میں کی گئی جو حزب اللہ کے مراکز سمجھے جاتے ہیں۔ جس طرح عسکریت پسندوں پر حملوں سے حماس کا نقصان تو کم ہوا لیکن 42ہزار سے زیادہ شہری شہید اور ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہوگئے،اسی طرح یہاں بھی حزب اللہ کے رضاکاروں کی بجائے بے گناہ شہریوں کا جانی اور مالی نقصان زیادہ ہوا۔اسرائیل کے وزیردفاع نےنہایت ڈھٹائی کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پرحملے جاری رہیں گے۔مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نے جو نیا محاذ جنگ کھولا ہے ،امریکہ اور اس کے اتحادیوں سمیت پوری عالمی برادری میں تشویش پھیل گئی ہے تاہم میڈیا کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔عرب ممالک نے حسب معمول اسرائیلی جارحیت کے پھیلاؤ کی زبانی مذمت کی ہے جبکہ ایران نے متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔مصر نے اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل کی ہے جبکہ ترکیہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے پورے مشرق وسطیٰ میں افراتفری پھیلے گی۔عراق نے معاملے پر عرب ملکوں کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جو غزہ کی جنگ روکنے کا شروع ہی سے مطالبہ کررہے ہیں،جس میں عالمی ادارے کے امدادی کارکن بھی اسرائیلی بمباری سے مارے گئےلیکن ان کی کوئی نہیں سنتا۔حزب اللہ نے اسرائیل کے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے کمانڈر علی قراقی شہید ہوگئے ہیں ۔حزب اللہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ علی قراقی سمیت اس کے تمام کمانڈر اور سینئر قائدین محفوظ ہیں۔لبنانی حکومت کے ترجمان نے بتایا ہے کہ حملے کے دوران نیٹ ورک پر 60ہزار سے زائد کالیں موصول ہوئیں جن میں سرکاری دفاتراور شہری علاقے خالی کرنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں ۔یہ اسی قسم کی کالز تھیں جو چند روز قبل بھی کی گئیں۔جن کے نتیجے میں موبائل ڈیوائسز میں دھماکے ہوئے،درجنوں شہری شہید ہوگئے اور وسیع علاقے میں تباہی پھیل گئی۔ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس قسم کی کالز وصول نہ کرنے کا پہلے سے انتظام کررکھا تھا،جس سے اسرائیل کا یہ خطرناک حملہ ناکام ہوگیا۔اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی اور اب لبنان پر بمباری کا جو خطرناک کھیل، کھیل رہا ہے ،غیرجانبدار مبصرین اس کے پیچھے امریکہ اور مغربی ملکوں کی عملی مدد دیکھ رہے ہیںجبکہ 6درجن سے زائداسلامی ممالک زبانی ہمدردی کے سوا ،ارض فلسطین کے اصل مکینوں کے قتل عام پر خاموش ہیں ۔وقت آگیا ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم کا اجلاس بلاکر اس معاملے پر واضح لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔(روزنامہ جنگ کا اداریہ)