تحریر: آشوتوش
دائیں بازو کی سیاست جھوٹ اور افواہوں کے گھوڑے پر سوار ہوکر سرپٹ بھاگتی ہے۔ تاریخ کوغلط ثابت کرنااس کے کردار کا اہم حصہ ہوتاہے۔ تاریخ سے اس کی شکایت اور اس سے پیدا ہونے والا درد اس کی جارحیت کو(ہوا) کھاد دیتی ہے ۔ اور یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ کمیونزم کے زوال اور لبرل ازم کے کمزور ہونے کےبعد دنیا میں دائیں بازو ایک بار پھر مضبوط ہو رہا ہے۔ بھارت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ویسے تو دائیں بازو ایک نظریہ ہے جو ضمیر سے زیادہ جذبات کو ترجیح دیتا ہے ۔جذبات کی لہر اکثر تاریخ کی از سرنو تشریچ کرتی ہے ۔ بھارت میں بھی تاریخ کی جد ت کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس حکمت عملی میں ساورکر کو لے کر ایک نیا تنازع کھڑا ہو گیا ہے ۔ اس تنازع کی جڑ میں ہے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا بیان ۔
راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ کالے پانی کی سزا کاٹتے ہوئے ساورکر نے گاندھی جی کے کہنے پر برطانوی حکومت کو رحم کی درخواست دی تھی۔ ساورکر نے کل چودہ سال جیل میں گزارے۔ ان میں سے تقریباً گیارہ سال وہ سیلولر جیل میں گزارے۔ جہاں غیر انسانی تشدد کیا جا تا تھا ۔ ونائیک ساورکر کےساتھ ان کے بڑے بھائی گنیش ساورکر بھی سیلولر جیل میں رہے تھے ۔ وہ ونائیک ساورکر سے پہلے ہی وہاں بھیج دئے گئے تھے ۔
ساورکر پر ایک الزام لگتا ہے کہ انہوں نے کالا پانی کی غیر انسانی تشدد سے خوفزدہ ہو کر انگریزوں کو کل پانچ ( کچھ مورخین سات بھی کہتے ہیں) رحم کی درخواستیں دائر کی تھیں اور معافی مانگ کر باہر آئے تھے ۔ ان کی جیل سے رہائی مشروط تھی ۔ ان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے جیل سے رہائی پانے کے لیے نہ صرف معافی مانگی بلکہ رہائی کے بعد انگریز حکومت کے تئیں وفادار بنے رہے۔ یہ تمام درخواستیں عوامی ہیں اور کوئی بھی ان کو پڑ ھ کر اپنا نتیجہ نکال سکتا ہے ۔
سنگھ اور ساورکر حامیوں حقائق کو غلط ثابت نہیں کرسکتے لیکن اس کی وہ نئی تشریح کرتے ہیں ۔ ان کے مطابق ساور کو لگتا تھا کہ جیل میں زندگی گزارنے سے اچھاہے کہ معافی مانگ کر باہر آجانا اور پھر ملک کی خدمت میں لگنا ۔ ان کے حساب سے ساورکر نے ایک حکمت عملی کے تحت رحم کی دراخواست دائر کی تھی اور معافی مانگی تھی، لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ 1924 میں جیل سے آزاد ہو نے کے بعد بھی ساورکر انگریزوں کے وفاد ار بنے رہے اور جب ملک گاندھی کی قیادت میں آزادی کی لڑائی لڑ رہا تھا تب وہ گاندھی کی تحریک کے خلاف کھڑے تھے اور انگریزوں کی مدد کررہے تھے ، لیکن اب انہیں گاندھی کا نام لے کر ساورکر کے معافی نامے کو صحیح ٹھہرانے کی کوشش کی جاری ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ گاندھی نے انگریزوں سے معافی مانگ کر باہر آنے کا کوئی مشورہ ساورلر کو کبھی نہیں دیا۔اس کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔
گاندھی اور ساورکر نظریے کے دو قطب ہیں جو کبھی نہیں ملے۔ گاندھی نے عدم تشدد کی بات کرتے تھے اور ساوکر تشدد کےحامی تھے ۔ تشدد کے لیے بھڑکانے اور انگریز افسر کو مارنے کے لیے لندن سے ہتھیار بھیجنے کے الزام میں ہی انہیں کالا پانی کی سزا ہوئی تھی ۔
یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے ایک برطانوی افسر کے قتل کے لیے مدن لال ڈھنگرا کوایک انگریز افسر کے قتل کے لیے تیار کیا تھا۔ گاندھی جہاں ہندو- مسلم ،سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتے تھے ، وہیں ساورکر دو راشٹر واد کی بات کرتے تھے۔ ان کے ہندوتوا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ گاندھی قابل حصول اور ذرائع دونوں کی حرمت کی وکالت کی،جبکہ ساورکر نے مقصد کے حصول کے لیے کوئی بھی ذریعہ استعمال کرنے کی بات کی۔ اس نے تشدد کو بھی جائز قرار دیا۔ گاندھی نے کبھی انگریزوں سے معافی نہیں مانگی۔ ان کا ماننا تھا کہ اپنے خیالات کی سچائی کے واسطے کوئی بھی قیمت چکانی پڑے، چکانی چاہئے۔ اس لئے گاندھی کئی بار جیل گئے لیکن باہر آنے کے لیے انہوں نے کبھی معافی نہیں مانگی۔
گاندھی جنوری 1915 میں ہندوستان واپس لوٹے تھے۔ تب تک ساورکر کو کالا پانی کے لیے بھیجا جاچکا تھا۔ اس درمیان ساورکر کئی بار رحم کی درخواست دائر کرچکے تھے۔ پھر 1917 میں بھی ساورکر نے رحم کی درخواست دی تھی۔ گاندھی تب تک کانگریس کے سب سے بڑے لیڈر نہیں بنے تھے ۔ وہ کسانوں کی تحریک کی قیادت کررہے تھے، ملک کو سمجھنے کے لیے گاؤں – دیہات کی خاک چھان رہے تھے ۔ اس دوران ان کے ساورکر کو رحم کی معافی کے لیے مشورہ دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ساورکر اس دوران کانگریس پارٹی سے ناراض تھے کہ وہ ان کی رہائی کے مسئلے پر خاموش تھی۔
28 اکتوبر 1916 کو اپنے بھائی نارائن راؤ کو لکھے گئے خط میں وہ لکھتے ہیں: ’’ایسے وقست میں جبکہ ملک بھر کے اخبار اور کانفرنسیں ہمارے جیسے انقلابی سیاسی قیدیوں کی رہائی کی مانگ کررہی ہیں ، کانگریس پارٹی کے لیڈر اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہتے….. ایسے میں وہ کیسے راشٹر ہونے کا دعویٰ کر سکتے پیں۔ دنیا ان سے امید کرتی ہے کہ بھارتیہ راشٹریہ کانگریس اپنے لیڈروں کی رہائی کے لیے تجویز پاس کرے۔‘‘
حقیقت یہ بھی ہے کہ گاندھی اور ساورکر میں زیادہ میل ملاپ نہیں تھا ۔ ایک بار لندن میں 1909 میں جب گاندھی ساورکر سے ان کی رہائش گاہ پر ملنے گئے تھے تب ساورکر جھینگا تل رہے تھے اور ساورکر نے اس بات پر گاندھی پر طنز کیا تھا۔ : ’’ وہ کیسے انگریزوں سے لڑیں گے جبکہ وہ نان ویجکا استعمال نہیں کرتے۔ ‘ دوسری بار 1927 میں رتنا گیری میں گاندھی پھر ساورکر سے ملے، ان کی رہائش گاہ پر۔ اس ملاقات کا اختتام بھی بہت خوشگوار نہیں تھا۔ گاندھی نے جب چلنے کے لیے وداعی لی توانہوں نے ساورکر سے پوچھا کہ ’ ان کو اس بات پر اعتراض نہیں ہونی چاہئے کہ مسائل کو سلجھانے کے لیے وہ کچھ کوشش کررہے ہیں ۔ ‘ اس پر ساورکر نے تلخ تبصرہ کیا:’ مہاتما جی آپ یہ کوشش راشٹر کی قیمت پر کریں گے ۔‘ موقع پر موجود اور کے گوانڈے نے یہ کہہ کر معاملے کو ہلکا کرنے کی کوشش کی کہ ’ گاندھی پلس ساورکر مطلب سوراج ‘
ساورکر نے ہمیشہ محسوس کیا کہ گاندھی مسلمانوں کو بہت زیادہ خوش رکھتے ہیں ،وہ اس کو صحیح نہیں مانتے تھے ۔ بعد میں کانگریس ے ان کی نفرت اس قدر بڑھی کہ کانگریس کو ہرانے اور اقتدار سے دور کرنے کے لیے ان کی پارٹی ہندو مہا سبھا نے جناح کی مسلم لیگ سے بھی ہاتھ ملانے سے گریز نہیں کیا۔
گاندھی نے 27 مئی 1920 کو ینگ انڈیا اخبار میں ایک مضمون لکھ کر ساورکر برادر کی رہائی کی مانگ کی تھی: ’’ بھارت سرکار اور صوبائی حکومتوں کا میں شکر گزارہوں کہ بہت سارے سیاسی قیدیوں کو شاہی رحم کا فائدہ ملا ہے ۔ لیکن ابھی بھی ساورکر برادر سمیت کئی سارے قیدی ہیں، انہیں آزاد نہیں کیا گیا ہے ۔‘‘ گاندھی نے اس مضمون میں آگے لکھتے ہیں ، ’’ اگر اس بات کے کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ وہ ساورکر کے لئے خطرہ ہیں تو انہیں چھوڑ دینا چاہئے۔ وہ پہلے ہی کافی تشدد برداشت کرچکے ہیں ۔ ایسے میں وائسراے کے پاس انہیں آزاد کرنے کے سوائے کوئی چارہ نہیں ہے ‘‘ اس پورے مضمون میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ وہ ساورکر کو معافی مانگنے کے لیے کہہ رہے ہیں یا معافی مانگنے کامشورہ دے رہے ہیں ۔ رحم کی درخواست ہر قیدی کا ایک آئینی حق ہے ۔ اور اس کے مانگنے میں کچھ بھی غلط نہیں ہے ۔ اسی جذبات سے گاندھی نے انگریز سرکار سے ساورکر سمیت تمام قیدیوں کے لیے اپیل کی تھی وہ قانونی سوالات اٹھا رہے تھے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ساورکر کے تناظر میں گاندھی کو لانے کی ضرورت تقریباً سو سال کے بعد کیوں آن پڑی ہے؟ وہ بھی ان گاندھی کی جن کے قتل کی سازش رچنے کا الزام ساورکر پر لگ چکا ہے اور وہ جیل جاچکے تھے۔ وہ بھی تب جب سرکار ولبھ بھائی پٹیل ملک کے وزیر داخلہ تھے ۔ اس معاملے میں شیاما پرساد مکھرجی کو سردار پٹیل نے اعتماد دیا تھا کہ ساورکر کے خلاف کارروائی قانون کے حساب سےہوگی۔ سیاسی بدنیتی کے جذبات سے نہیں۔ بعد میں تکنیکی گراؤنڈ پر ساورکر کو گاندھی قتل کے معاملے میں عدالت نے بری کردیا تھا۔ لیکن دو دہائی بعد کپور کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ان پر شبہ ظاہر کیا تھا۔
دراصل سب کو معلوم ہے کہ ساورکر پر جو داغ لگاہے ، اس کو گاندھی ہی دھوسکتے ہیں، اس لئے راج ناتھ سنگھ کے بیان کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن گاندھی کو ساورکر وادی آج بھی گالی دیتے ہیں ، ان کو بھی ساورکر کی نجات کے لیے گاندھی ہی چاہئے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب کی ساورکر کے ہندوتوا کا بول بالا ہے ۔ کون کہتا ہے کہ گاندھی آج زندہ نہیں ہیں ۔ نظریے کوئی بھی ، گاندھی کے ملک میں گاندھی کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ پھر چاہئے دائیں بازو ہو یا بائیں بازو یا لبرل ۔
(بشکریہ : ستیہ ہندی )