کلیم الحفیظ۔نئی دہلی
آنکھ کھلتے ہی موبائل کی طرف ہاتھ بڑھتا ہے ،واٹس اپ اور فیس بک پر ڈھیروں پیغامات وصول ہوتے ہیں ،لیکن گزشتہ 20اپریل سے آج تک شاید ہی کوئی دن ایسا گیا ہو کہ ان پیغامات میں کورونا سے موت کو گلے لگانے والوں کی خبریں ندادرد ہوں۔سورج طلوع ہوتا ہے تو اخبار بھی یہی خبریں لے کر آتا ہے۔ کورونا وبا کی پہلی لہر میں میں بھی بہت سے اہل علم اور ماہرین فن داغ مفارقت دے گئے تھے اور دوسری لہر میں تو یہ صورت حال اجتماعی ہوگئی ہے۔ایک دن میں ایک نہیں کئی کئی بے مثال لوگ دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔عام لوگوں کی گنتی نہیں کہ ان کی تعداد ہر روز دسیوں ہزار ہے مگر وہ لوگ جو لاکھوں میں ایک تھے،جن کی وفات قوم و ملت اور ملک کے لیے ناقابل تلافی نقصان شمار کی گئی ۔ان کی تعداد کا بھی اب شمار ممکن نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے۔لیکن کسی وبائی بیماری میں ایک ساتھ علم و دانش کے چراغوں کا بجھ جانا کوئی نیک شگون نہیںہے ۔اس سے سماج میں اندھیرا بڑھ جانے کا اندیشہ ہے ۔اگر وقت رہتے نئے چراغوں میں لہو نہیں ڈالا گیا اور انھیں تابناک نہیں کیا گیا تو مستقبل ہی اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔
میرے پاس تمام اہل علم کی فہرست تو نہیں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اس دوسری لہر نے یونیورسٹیاں خالی کردی ہیں اکیلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دودرجن وہ اساتذہ رخصت ہوگئے جو ابھی اپنی ڈیوٹیاں کررہے تھے ،فرض سے سبک دوش ہونے والے بھی اچھے خاصے ہیں ایک اطلاع کے مطابق اب تک یونیورسٹی سے 78 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں ۔کم و بیش یہی حال دوسرے اداروں اور شعبوں کا ہے۔پورے ملک میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق 452ڈاکٹرس دوسروں کی مسیحائی کرتے کرتے خود وبا کا شکار ہوگئے،یوپی حکومت کی ناعاقبت اندیشی سے 1621پرائمری اساتذہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اب سرکاری سازشوں سے ان کے وارث ان مراعات سے بھی ہاتھ دھولیں گے جو بعد از مرگ ان کو ملنے والی تھیں ،اس لیے کہ یوگی حکومت نے کہا ہے کہ صرف تین اساتذہ ہی آن ڈیوٹی مرے ہیں۔خیر میں ذکر کررہا تھا کہ مسلمانان ہند کے درمیا ن سے آناً فاناً ایسے لوگ اٹھ گئے جن کو بننے اور سنورنے میں برسوں لگے تھے۔اس دوران جناب ولی رحمانیؒ جیسا ذی علم رخصت ہوگیا،جس نے مونگیر ہی نہیں پورے ملک میں علم کی شمعیں روشن کیں،مولانا وحید الدیں خان چلے گئے جن کے علمی کارناموں کا اعتراف ایک دنیا نے کیا،اسلامک فقہ اکیڈمی کے خاموش مزاج مگر علم کے سمندرسکریٹری جناب امین عثمانی ؒبھی خاموشی سے چلے گئے،جماعت اسلامی کو ایک نیا ویژن دینے والے جناب صدیق حسن ؒبھی ابدی نیند سوگئے۔اسی مہاماری نے ہم سے شیعہ سنی اتحاد کے مخلص متمنی کلب صادق کو ہم سے چھین لیا تھا۔یہ وہی شخصیت ہے جن کی نماز جنازہ شیعوں اور سنیوں نے اپنے اپنے مسلک کے اعتبار سے پڑھی تھی ،جمعیۃ العلماء کے صدرقاری عثمان قاسمیؒ کی تعزیت مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ مفتی فضیل عثمانی ؒنے صرف 61سال کی عمر میں ہی دنیا کو الوداع کہہ دیا ،مفتی صاحب نے بہار کے پسماندہ علاقوں میں علم کے دیے جلائے۔گزشتہ سال خانقاہ نیازیہ بریلی کے سجادہ نشین شاہ محمد حسنین عرف حسنی میاںؒ تو اس بار قادریہ خانقاہ بدایوںکے سجادہ نشین تاج دار اہل سنت شیخ عبدالحمید سالم قادری ؒبھی اپنے عقیدت مندوں کو جدائی کا غم دے گئے،ندوہ برادری نے پہلی لہر میں مولانا واضح رشید ندویؒ کوجن کے عربی ادب کا اہل عرب بھی لوہا مانتے تھے کھویا تھا تو دوسری لہر میںسید حمزہ حسنی ندوی ؒ کو رودیے ۔یہ چند نام تو وہ ہیں جو ہماری دینی محاذ پر قیادت کررہے تھے،اس کے علاوہ بھی زندگی کے دیگر شعبہ جات میں بھارتی مسلمان اپنے نایاب ہیروں سے محروم ہوگئے،ایڈوکیٹ شکیل صمدانی کو کون بھول سکتا ہے ،جو قوم کا دردلیے لیے پھرتے رہے ۔پہلی لہر میں اردو ادب کے روشن ماہتاب شمش الرحمان فاروقی اورقابل رشک غیر مسلم شاعرگلزار دہلوی چلے گئے تو اس مرتبہ پروفیسر شمیم حنفی، ذوقی اور ترنم ریاض نے قدرت کے سامنے قلم رکھ دیا۔سیاست کی دنیا میں بھی کچھ کم نقصان نہیں ہوا۔کانگریس کی روح کہے جانے والے احمد پٹیل جیسے دور اندیش سیاست داں سے ہم محروم ہوگئے۔ان کے علاوہ کتنے ہی عزیز اور احباب نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ان تمام لوگوں کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا مگر ڈاکٹر فخرالدین محمد کا خیال آتے ہی میری آنکھیں میرا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں ۔
جانے والے چلے گئے۔ہمارا کچھ لے کر نہیں گئے بلکہ ہمیں بہت کچھ دے کر گئے۔ان تمام مرحومین کا جن کا ذکر میں نے کیا یا وہ تمام مرحومین جن کا ذکر میں اپنی ناواقفیت کی بنا پر نہ کرسکا جن کے بارے میں ان کے حلقوں نے اپنے تعزیتی پیغامات اور تعزیتی اجلاسوں میں کہا کہ ان کا جانا قوم و ملت کا بڑا خسارہ ہے ۔بلکہ ایسا نقصان ہے جس کی تلافی بھی ممکن نہیں ۔میں ان تمام کے علمی کارناموں،ملت کو طاقت ور بنانے میں ان کے کردار کا اعتراف کرتا ہوں،بار گاہ رب العزت میں ان کے ترقی درجات کی دعا کرتا ہوں مگرمیں ان تمام حلقوں اور ا ن کے تمام پسماندگان سے معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے کیا اس ناقابل تلافی نقصان کی تلافی کا کوئی منصوبہ بنایا ہے۔؟بانجھ پن زندگی کی نہیں موت کی علامت ہے۔اگر اسی طرح سے لوگ اٹھتے رہے اور ہم نے ان کی جانشینی کا یا ان کے نعم البدل کا کوئی لائحۂ عمل نہیں بنایا تو بس اسلاف کی برسیاں ہی مناتے رہ جائیں گے۔میں پوچھتا ہوں کہ آخر کفر کی دنیا کو جب علم برادار مل سکتے ہیں تو اسلامی معاشرے کو کیوں نہیں مل سکتے ؟ہمارے اندر دوسرا سرسید،ابوالکلام آزاد،شبلی،علی میاں ،مودودی کیوں نہیں پیدا ہوا؟چلیے ان کے بعد جو دوسری قطار کے لوگ تھے،جو اگرچہ ان کے ہم پلہ نہیں تھے لیکن پھر بھی غنیمت تھے کیوں کہ آپ سب اس بات پر متفق ہیں کہ ان کا انتقال ملت کا ناقابل تلافی نقصان ہے ۔اب اس دوسری صف کے لوگوں کے رخصت ہوجانے کے بعد کیا واقعی ہمارے پاس تیسری لائن میں لوگ موجود ہیں؟میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ جب ہم اپنے پیچھے دیکھتے ہیں تو ہمیں میدان خالی نظر آتا ہے۔
اس سلسلے میں میری تلخ نوائی پر مجھے معاف کیجیے ،جہاں جہاں جانشینی کا بحران ہے وہاں وہاں خود صاحب مسند اور صاحب منصب ہماری قیادت نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ ہم اپنے بعد اپنی کرسی پر اپنے سے بہتر شخص کو اپنی زندگی ہی میں بیٹھا دیں۔ہمارے بعض احباب تو کچھ کرتے بھی نہیں اور کرسی بھی نہیں چھوڑتے اس ضمن میں بطور مثال بہت سے ملکی اور قومی اداروں کانام لیا جاسکتا ہے ۔ہمارے اعضا جواب دے گئے مگر ہم نے یہی چاہا کہ کرسی پرہی موت آئے ۔بقول شاعرہمارا حال یہ ہوگیا:
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغرو مینا مرے آگے
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص جس طرح اپنے ذاتی کاروبار کے لیے اپنے وارثوں کی تربیت کرتا ہے اسی طرح ملی اداروں ،ملی جماعتوں ،اور ملی قیادت کے لیے بھی اپنے بعدکم سے کم دو تین نسلوں کی تربیت کرنا چاہیے تاکہ اس کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ایک سے بڑھ کر ایک نایاب فرد ہمیں دستیاب ہواور ہم جانے والوں کو رونے کے بجائے ان کے نعم البدل پر اللہ کا شکر بجا لائیں۔میری تجویز ہے کہ تمام ملی اور اجتماعی اداروں کی قیادت کے لیے عمر کی ایک حد طے ہو۔اس عمر کے گزرنے کے بعد وہ لوگ مربی کا کردار ادا کریں اورنئی نسل کو آگے بڑھائیںتاکہ ملک و ملت کو تازہ خون ملتا رہے۔