ممبئی :(ایجنسی)
تمل زبان کی ایک فلم ’جے بھیم‘ کو آئی ایم ڈی بی پر صارفین نے سب سے زیادہ اچھی فلم کا درجہ دیا ہے اور اس نے ’دی شاشانک ریڈیمپشن‘ اور ’دی گاڈ فادر‘ جیسی بڑی کلاسک فلموں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
فلم صحافی اسیم چھابرا لکھتے ہیں کہ یہ انڈین فلموں کے تازہ ترین سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں دلتوں کے خلاف جبر کی کہانیاں بیان کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ دلت ہندو ذات پات کی سخت درجہ بندی میں سب سے نچلے درجے میں شمار ہوتے ہیں۔
جے بھیم فلم کی ابتدا اس منظر سے ہوتی ہے جس میں پولیس افسران مشتبہ افراد کے ایک گروپ کو ان کی ذات کی بنیاد پر الگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
’اعلی ذاتوں‘ سے تعلق رکھنے والوں کو وہاں سے جانے کو کہا جاتا ہے، جبکہ دوسرے جو دلت ہیں (سابقہ اچھوت) یا قبائلی برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں، انھیں وہیں روکنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ بعد میں پولیس اس گروپ کے لوگوں کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کرتی ہے۔
یہ ایک خوفناک اور پریشان کن منظر ہے، جس میں خوفزدہ افراد کونے میں کھڑے ہیں، جو کسی حد تک اپنے انجام سے واقف ہیں۔ یہ اس بات کی ایک یاد دہانی ہے کہ یہ یہاں ایک طرح سے معمول کی بات ہے اور بھارت کے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں پسماندہ طبقے، خاص طور پر دلتوں کی زندگی کتنی ناگفتہ بہ ہوتی ہے۔
دلت ہندوستان کی آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں۔ حالانکہ ان کے تحفظ کے لیے قوانین ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں روز مرہ زندگی میں امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جے بھیم کا ترجمہ ’زندہ باد بھیم‘ کیا جا سکتا ہے، یہ ایک ایسا نعرہ ہے جسے دلت اسکالر، ہندوستانی آئین کے معمار اور پہلے وزیر قانون بی آر امبیڈکر کے پیروکاروں نے مقبول بنایا۔
اس فلم کے ہدایتکار ٹی جے گیانویل ہیں جبکہ تمل فلم اسٹار سوریہ نے اپنی اس فلم میں خود مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ یہ مرکزی کردار ایک جانباز وکیل کی سچی کہانی پر مبنی ہے۔ وہ ایک حاملہ خاتون کی طرف سے دائر درخواست کے لیے لڑتا ہے جس کے شوہر کو پولیس کی تحویل میں رکھا گیا تھا اور بعد میں اسے لاپتہ قرار دیا جاتا ہے۔
جے بھیم تامل سنیما کی ایک نئی تحریک کا حصہ ہے جہاں کئی نوجوان فلم ساز دلتوں کے خلاف جبر کی کہانیاں بیان کر رہے ہیں۔ فلمی تاریخ دان ایس تھیوڈور بھاسکرن نے کہا کہ ’گذشتہ 30 سالوں میں تمل ناڈو میں دلت تحریک بڑھ رہی ہے جو کہ سنہ 1991 میں امبیڈکر کی صد سالہ تقریب سے شروع ہوئی تھی۔
‘
’20 ویں صدی کے فراموش کردہ دلت نظریات کی وکالت کرنے والوں کو تاریخ سے تلاش کیا جا رہا ہے۔ پیریار اور امبیڈکر جیسے سماجی کارکن اور سیاست دان کے نظریات بہت سے دلت مصنّفین کی تحریروں کے ذریعے پھیلے ہیں۔ پچھلی دہائی میں ایسے کچھ مصنّفین سنیما کی دنیا میں گئے اور فلمیں بنائیں۔ لیکن انھوں نے گانے، لڑائیاں اور میلو ڈراما جیسے معمول کے اجزا کو اس میں شامل رکھا۔‘
اب دلت کی داستانوں کو دیگر ہندوستانی زبانوں میں آزاد یا انڈین فلموں میں بھی جگہ مل رہی ہے۔ جیسے آنھے گورھے دا دان (پنجابی) میں دلت سکھوں کی زندگیوں کی تلاش ہے، مسان (ہندی) میں شمشان گھاٹ (ہندوؤں کے مردے کو جلائے جانے کی جگہ) پر کام کرنے والے خاندان کے ایک نوجوان اور ایک اعلیٰ ذات کی لڑکی کے درمیان رومانس کو دکھایا گيا ہے، اسی طرح فینڈری اور سیرت (دونوں مراٹھی میں) جیسی فلمیں اس میں شامل ہیں۔ آخرالذکر دو فلموں کو ناگراج منجولے نے ڈائریکٹ کیں جو خود ایک دلت ہیں۔
فینڈری میں ایک نوجوان لڑکے کی کہانی بیان کی گئی ہے جس کا خاندان گاؤں میں خنزیر یعنی سور پکڑتا ہے اور اسے ایک اعلیٰ ذات کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس گروپ میں تامل انڈسٹری کی فلم کوزھنگل یعنی کنکریاں بھی شامل ہے، جو سنہ 2022 میں آسکر کے لیے بہترین بین الاقوامی فلم کے زمرے میں انڈیا کی باضابطہ نمائندگی کر رہی ہے۔
لیکن اب مرکزی دھارے کے تمل سنیما میں بھی بہت سی فلمیں بن رہی ہیں جن کے مرکزی کردار دلت ہیں، جو طویل عرصے تک امتیازی سلوک کے بعد اپنے حقوق کے لیے لڑتے ہیں۔ اور جب قانونی چارہ جوئی سے ان کے مصائب ختم نہیں ہوتے تو وہ لڑائی کو جسمانی سطح تک لے جانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
ہدایت کاروں میں تجربہ کار فلمساز وتریمارن شامل ہیں، جنھوں نے سنہ 2015 میں پڑوسی ملک آندھرا پردیش میں تمل تارکین وطن کی حالت زار پر مبنی فلم ’وسارانی‘ بنائی تھی، اور ان کی فلم ’اسورن‘ دلتوں کے قتل عام سے متاثر ایک سازش پر مبنی ہے۔ ماری سیلواراج اور پا رنجیت یہ دونوں ہدایتکار اپنی تیس کی دہائی کے آخر میں ہیں اور انھوں نے دلت پر مبنی مرکزی کردار والی کہانیاں تیار کی ہے۔
دلت فلمساز رنجیت، جنھیں اکثر تمل فلم انڈسٹری کا ’سپائک لی‘ کہا جاتا ہے، انھوں نے تمل فلموں کے حوالے سے سنہ 2020 کے انٹرویو میں ’دی وائر‘ کو بتایا تھا کہ ’دلت کرداروں کی نمائندگی تکلیف دہ تھی…..یا تو وہ سرے سے مسترد تھے یا کہانی میں صرف ان کی شمولیت کو ہی ’انقلابی‘ سمجھا جاتا تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’اس تناظر میں، مجھے اس پر غور کرنا تھا کہ میری کہانیاں کیا کہہ سکتی ہیں۔۔۔ میں یہ دکھانا چاہتا تھا کہ میری ثقافت خود امتیازی سلوک اور تشدد پر مبنی ہے۔۔۔ آج، ڈائریکٹر جب دلت کردار لکھتے ہیں تو وہ زیادہ حساس ہوتے ہیں۔‘
رنجیت نے ہدایت کار ماری سیلواراج کی پہلی فلم ’پیریرم پیرومل‘ کو پروڈیوس کیا۔ فلم کا آغاز ایک کارڈ سے ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے ‘ذات اور مذہب انسانیت کے خلاف ہیں۔فلم کا مرکزی کردار امبیڈکر کی طرح وکیل بننا چاہتا ہے۔
فلم کے وسط میں سیلواراج نے مردوں کا ایک گروپ دکھایا ہے جس میں وہ 1983 کے فلمی گانے ’پراڈا‘ پر رقص کر رہے ہیں۔ اپنے میں ہی ایک لیجنڈری موسیقار اور بذات خود ایک دلت الیّاراج کے مرتب کردہ گانے کے بول کچھ اس طرح ہیں: ’ہم تمہارا تخت چھین لیں گے۔۔۔ ہماری جیت کے جشن کی آواز سنی جائے گی۔۔۔ ہماری روشنی اس دنیا کو بھر دے گی۔۔۔ ہم غریب مزدور مقابلہ کریں گے۔‘ یہ گیت سیلواراج کی فلم کرنن (2021) میں بھی پس منظر میں چلتا رہتا ہے اور اب اسے دلت ترانے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
رنجیت کی فلموں کو تمل سنیما کے سپر سٹار رجنی کانت کے تعاون سے فروغ ملا۔ اداکار کو جب ایک کہانی سنائی گئی تو وہ اس سے متاثر ہوئے اور انھوں نے ’کبالی‘ (ملائیشیا میں تمل تارکین وطن کے پرتشدد گینگسٹر دنیا کی کہانی) اور کالا میں مرکزی کردار ادا کرنے پر اتفاق کیا۔ کالا فلم ممبئی میں ایشیا کی سب سے بڑی کچی بستی دھاراوی میں مقیم ایک بڑی تمل مہاجر آبادی پر مبنی ہے۔
تقریباً تین گھنٹے کے دورانیے والی اپنی تازہ ترین فلم ’سرپتا پارمبرائی‘ میں رنجیت چینئی شہر میں دلتوں کے درمیان باکسنگ کے کلچر کی کھوج کرتے ہیں جو دنیا کے معروف ترین باکسر محمد علی اور ان کی سرگرمیوں سے بہت متاثر ہے، چاہے وہ ویتنام کی جنگ کے خلاف ہو یا امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف۔
کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ تمل سنیما میں دلت کرداروں کی نمائندگی پر جو پزیرائی مل رہی ہے وہ اس کے اتنے مستحق بھی نہیں ہیں۔’سنہ 2019 کی فلم ‘مداتھی:این ان فیئری ٹیل‘ میں ہدایت کار لینا منیمیکلائی نے ذات باہر دلت برادری کی ایک نوجوان عورت کی ایک پریشان کن کہانی بیان کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے سنیما میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
منیمیکلائی کا کہنا ہے کہ اس میں ’ایک ہی ہیرو، انتہائی مردانہ، ہمہ گیر، اصل زندگی سے بڑی شخصیت، نجات دہندہ داستانوں کو پیش کیا جا رہا ہے۔‘
’میں اب بھی ان میں یہی دیکھتی ہوں کہ خواتین کے کرداروں کو اپنے شوہروں، عاشقوں اور پسماندہ کمیونٹیز کے لیے محض نمائش یا چیئر لیڈرز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور وہ اپنے ہیروز کا ’انتظار‘ کر رہی ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنی کلہاڑی، بندوق اور درانتی سے انھیں نسلوں سے ہونے والے امتیازی سلوک سے بچائیں۔‘
لیکن یہ واضح ہے کہ ناظرین نیا سنیما دیکھ رہے ہیں۔ جے بھیم تھیٹروں میں نہیں ریلیز ہوئی اس لیے اس کی مقبولیت کی تصدیق کے لیے کوئی باکس آفس اعداد شمار نہیں ہیں۔ لیکن آئی ایم ڈی بی پر صارفین کی جانب سے اس فلم کو دس میں سے 9.6 ریٹنگ دیے جانے نے اسے آن لائن ڈیٹا بیس پر سرفہرست پہنچا دیا ہے۔