تحریر: عارف اکرام قاسمی ( لندن )
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبا یونین کے صدر، بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے رکن، صحافی اور دانشور جاوید حبیب صاحب کو ہم سے بچھڑے ہوئے نوسال ہوچکے۔ یہ مختصر مضمون ایک بے لوث ملی قائد کے تئیں اپنے احساس احسان مندی کے اظہار کے لئے لکھ رہا ہوں۔ آئیے آج اس محسن قوم کو یاد کرکے اس کے حق میں دعائے مغفرت کردیں اور جنہیں نہیں معلوم انہیں بھی بتادیں کہ مخلص قیادت کے فقدان کا رونا رونے والی اس قوم میں ایسے ایسے نادر ہیرے بھی پیدا ہوئے ہیں۔
جاوید حبیب صاحب راجستھان کے شہر ٹونک میں 3 مئی 1948 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد حبیب الدین خان اپنے وقت کے معروف وکیل تھے۔ ٹونک میں وہ خاص وعام سب کے نزدیک ایک معززومکرم شخصیت کے حامل تھے۔ جاوید حبیب بچپن ہی سے بلا کے ذہین اور نہایت زیرک انسان تھے۔
ان کی ابتدائی تعلیم ٹونک کے ہی ایک مسلم اسکول میں ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے 1965 میں ان کو مدھیہ پردیش کے شہر اندور بھیجا گیا جہاں انہوں نے سوشل سائنس اور آرٹس میں اعلیٰ نمبروں کے ساتھ (بی اے ) پاس کیا۔
1968 میں انہوں ںے اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا جہاں انہوں نے جلد ہی وہ مقام حاصل کر لیا جو جونئر طلبہ تو کیا سینئرز کو بھی مشکل ہی سے حاصل ہوتا ہے۔
اپنی تقریری اور تحریری صلاحیتوں کی بنیاد پر انہوں نے جلد ہی یونیورسٹی میں اپنا لوہا منوالیا۔ سال1977-1978 کے لئے وہ طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کی صدارت میں طلبہ یونین جس انداز میں متحرک رہی اوراس کو جو مقبولیت حاصل ہوئی اس کا اندازہ میرے بڑے ہی مشفق و محترم معروف صحافی، اقرا نیوز لندن کے نیوز ایڈیٹر جناب محمد غزالی خان صاحب کی اس تحریر سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے:’’میں نے 1974 میں علیگڑھ میں پی یو سی میں داخلہ لیا اور ایل ایل بی کے بعد پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما اِن جرنلزم کرنے کے سلسلے میں 1983 تک وہاں رہا۔ اس دوران کئی طلباء یونینیں بدلتی دیکھیں مگر حقیقت یہ ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلباء یونین کی جو شہرت رہی ہے، جاوید حبیب کی زیر صدارت اس کی آخری کڑی تھی۔ اس دوران یونین جس انداز میں متحرک رہی، خواہ وہ تحریری اور تقریری مقابلوں کا اہتمام ہو یا یونین کے اپنے اخبار کی اشاعت ہو یا قابل قدر شخصیات کو یونین ہال میں بلاکر ان کی عزت افزائی کا معاملہ ہو‘‘۔ (جاوید حبیب’’ہجوم‘‘ سے تنہائی تک، معصوم مرادآبادی، خبردار پبلکیشنز، دہلی،2014 ص ن: 127)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کے لئے چلنے والی تحریک میں انہوں نے نمایاں کردارادا کیا اور ہر محاذ پر پیش پیش رہے۔ خواہ وہ طلباء کی نمائندگی کرنی ہو یا سیاسی قائدین تک اپنی بات کو پہنچانا ہو۔ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی تک جاوید حبیب صاحب بڑی مستعدی کے ساتھ تحریک کے ساتھ وابستہ رہے۔
1979 میں علی گڑھ سے فراغت کے بعد انہوں نے دہلی کا رخ کیا اور وہاں سے اپنے دور کا منفرد ہفت روزہ اخبار’’ہجوم‘‘ نکالنا شروع کیا جو اپنی حساسیت اور سنجیدہ موضوعات کے انتخاب کی وجہ سے بڑا مقبول ہوا۔
ہجوم کی اشاعت کے ساتھ ساتھ انہوں نے مسلم نوجوانوں کو متحد کرنے اور ان کے اندر ایک سیاسی شعور پیدا کرنے کے لئےآل انڈیا مسلم یوتھ کنونشن کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس کا مقصد مسلم نوجواںوں کوسماجی، سیاسی، تعلیمی اورمعاشرتی سطح پر مضبوط، فعال اور دوراندیش بنانا تھا۔
جاوید حبیب صاحب نے بابری مسجد تنازعے میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بابری مسجد تحریک میں بھی حصہ لیا اور پورے ملک میں لوگوں کو بابری مسجد کی بازیابی کے تعلق سے آگاہ کیا۔ ایک انٹرویو میں جب ان سے بابری مسجد کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ آپ بابری مسجد کی شہادت کوکس نظر سے دیکھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ (ذہن میں رہے کہ یہ انٹرویو 90 کی دہائی میں دیا گیا ہوگا) :’’ممکن ہے کہ کچھ لوگ میری رائے سے اتفاق کرنے میں پس و پیش کریں لیکن میری مستحکم رائے یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ پر استعماری اور صیہونی طاقتوں کا غاصبانہ قبضہ اور بابری مسجد کو رام جنم بھومی بنانے کی کوشش اگر براہ راست نہیں تو بلواسطہ ایک ہی سازش کی کڑیاں ہیں۔ مسلمانوں کے قبلہ اول پر قبضے کے بعد یہودی درندے ارض مقدس خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ پر قبضے کے ناپاک خواب دیکھ رہے ہیں تاکہ قلب اسلام اور مراکز مسلمانان عالم پر ان کی دسترس ہوجائے اور ٹھیک وہی ذہنیت ہندوستان میں کام کررہی ہے کہ بابری مسجد کے قبضے کو ہندوراشٹر بنانے کے عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنایا جارہا ہے۔ صیہونیت عالمی پیمانے پر اور برہمنیت ہندوستانی تناظر میں کم و بیش ایک ہی ذہنیت کے دو رخ ہیں‘‘۔ (جاوید حبیب ’’ہجوم‘‘ سے تنہائی تک، معصوم مرادآبادی، خبردار پبلکیشنز، دہلی، 2014ص ف : 27 )
ان کی سالوں پہلے کہی ہوئی یہ بات آج من وعن پوری ہورہی ہے کہ آج فسطائی طاقت اپے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لئے کس طرح کمربستہ ہے۔
جاوید حبیب صاحب کو بابری مسجد کی شہادت کا اس قدر صدمہ تھا کہ ان کی اخیر زندگی کے بیس سال نہایت کرب والم، بےکسی اور بیماری میں گزرے۔
جاوید حبیب صاحب ٹاڈا جیل میں مقید مسلم نوجوانوں کی رہائی کے لئے بھی مسلسل کوششیں اور کاوشیں کرتے رہے اور ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے۔ ان کا سب سے بڑا طرہ امتیاز یہ تھا کہ وہ کبھی بھی کسی کے سامنے جھکے نہیں۔ اپنی اصول پسندی اور حق گوئی کے ساتھ انہوں نے کبھی سودا نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ باوجود ملک کے چار چار وزرائے اعظم (آنجہانی ویپی سنگھ ، اٹل بہاری واجپئی، نرسمہاراؤ اورچندر شیکھر) سے تعلق ہونے کے انہوں نے کبھی اپنے ذاتی مفادات کے لئے کسی سے کچھ نہیں مانگا بلکہ ہمیشہ ملک وملت کے مفاد کے لئے اپنے مفادات کو قربان کیا۔ اگر چاہتے تو حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے اور اپنی زندگی کے ایام بڑی خوشگواری کے ساتھ گزارتے لیکن انہوں نے کبھی اپنے ضمیر سے سودے بازی کو روا نہیں سمجھا اور مکروفریب کی سیاست سے ہمیشہ دور رہے۔
جاوید حبیب ایک فعال، دوراندیش، قائدانہ صلاحیتوں کے مالک، با بصیرت سیاست داں، بے باک اور بےخوف صحافی اور مقرر، قوم کے مخلص رہنما اور ایک خود دار انسان تھے۔ وہ ایک ایسا ہیرا تھے کہ جس کو تراش کراس کی چمک سے پوری قوم کو روشنی حاصل ہوتی لیکن افسوس کہ اس نایاب ہیرے کی چمک سے روشنی حاصل نہیں کی گئی اور یہ ہیرا ہمیشہ کے لئے گیارہ اکتوبر 2012 کو زیر زمیں دفن ہوگیا۔
مجھے جاوید حبیب صاحب کے متعلق پڑھ کر یہ محسوس ہوا ہے کہ ملت نے ان کے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا جیسے ان سے پہلے مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ان دونوں شخصیات سے ملت فائدہ اٹھاتی تو آج ہندوستانی سیاست کا منظر نامہ مختلف ہوتا۔
بہرحال دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)