’’صحافت ختم ہورہی ہے اور صحافی بڑھ رہے ہیں! ’ٹھیک اسی طرح کھیت ختم ہو رہے ہیں اور زرعی مزدور بڑھ رہے ہیں۔ کھیتی کی زمین بڑے گھرانے خرید رہے ہیں اور اب وہ ہی طے کرنے والے ہیں کہ اس پر کونی سی فصلیں اگانی ہیں۔‘‘
کولکاتا سے نکلنے والے انگریزی اخبار ‘’دی ٹیلی گراف‘ کے پیر (29 مارچ 2021) کے شمارے میں صفحہ اول پر ایک خصوصی خبر شائع ہوئی ہے۔ خبر گوہاٹی کی ہے اور اس کا تعلق 27 مارچ کو آسام میں اختتام ٖپذیر ہوئی اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلہ کی ووٹنگ سے ہے۔ آسام میں تین مرحلے میں ووٹنگ ہونی ہے۔تیسرے و آخری مرحلے کی ووٹنگ چھ اپریل کو ہونے والی ہے۔
ٹیلی گراف کے مطابق آسام کے نو سر فہرست اخبارات (سات آسامی ، ایک انگریزی میں اور ایک ہندی) میں پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے ٹھیک اگلےہی دن صفحہ اول پر سب سے اوپر ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلی ایک ’خبر‘ نمایاں طور پر شائع ہوئی ہے۔ سبھی میں ایک جیسے چوکانے والے عنوان کے ساتھ شائع مبینہ خبر حقیقت میں اشتہار ہے۔
’خبر‘کے بائیں جانب بی جے پی کا نام اور اس کا انتخابی نشان بھی دیا گیا ہے۔ ان تمام اخبارات نے خبر کی شکل میں ایک جیسا جو کچھ شائع ہوا ہے ( بی جے پی اوپری آسام علاقے کی وہ سبھی 47 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے جارہی ہے جہاں پہلے مرحلے میں ووٹنگ ہوئی ہے۔ )
منصفانہ صحافت؟
مذکورہ اشاعت کے ذریعہ مبینہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملہ پر آسام کی تمام سیاسی جماعتوں نے ایف آئی آر درج کرائی ہے اور دیگر کارروائی بھی کی جارہی ہے۔ مگر ہمارا سوال برعکس ہے۔ وہ یہ کہ کیا اخبارات کے ایڈیٹرز نے یہ کام نادانستہ طور پرکیا (یا ہونے دیا)اور انہیں اس بات کی جانکاری نہیں تھی کہ قارئین کے ساتھ منصفانہ صحافت کے نام پر ’دھوکہ دہی‘ کی جارہی ہے؟ یا پھر کسی دباؤ کی وجہ سے ،سب کچھ جانتے ہوئے ہونے دیا گیا؟
ضابطہ اخلاق کے مطابق انتخابات ختم ہونے تک ایسی کوئی معلومات ، تخمینہ یا سروے شائع یا نشر نہیں کیے جاسکتے ہیں۔
رویش کمار کا شمار ملک کے ایماندار اور ممتاز مدیروں میں ہوتا ہے۔ وہ اور ان جیسے بہت سے دیگر صحافی کثیر تعداد میں نہ ہونے کے باوجود اظہار رائے کی آزادی کے لئے مسلسل لڑرہے ہیں۔ رویش اپنی گفتگو میں اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ لوگوں کو ’گودی‘ میڈیا دیکھنا (اور پڑھنا) بند کردینا چاہئے۔ ’گودی‘ میڈیا سے ان کا مطلب یقینی طور پر اس میڈیا سے ہے جو پوری طرح سے سسٹم کی گود میں بیٹھا ہوا ہے اور جان بوجھ کر ’سنجے کے بجائے ’دھرتراشٹر‘ کی شکل اپنائے ہوئے ہے۔
رویش کمار یہ نہیں کہتے (یا بتانا چاہتے ) کہ جس طرح کا میڈیا اس وقت خبروں کی منڈی میں بک رہا ہے ، اس میں ناظرین اور قارئین کو کیا دیکھنا اور پڑھنا چاہئے؟ یہ بتانا ایک بہت ہی مشکل اور چیلنج سے بھرا کام ہے ، خاص طور پر ایسی صورتحال میں جہاں تقریباً تمام بڑے کنوؤں میں وفاداری کی بھانگ ڈال دی گئی ہو۔ ایمرجنسی کے دوران میڈیا سنسرشپ کے باوجود کافی کچھ کنویں باقی تھے جن کے پانی پر بھروسہ کیا جاسکتا تھا۔
انڈین ایکسپریس کی فہرست سے غائب
ایمرجنسی کی بات چلی ہے تو اس وقت کے بے خوف وبے باک اخباروں میں ایک’ ‘انڈین ایکسپریس‘ کے ایڈیٹرز اور صحافیوں کا کافی نام تھا۔( خوش قسمتی سے میں اس دوران وہیں کام کرتا تھا) اندرا گاندھی کے خلاف لڑنے والے اس انگریزی اخبار نے حال ہی میں سال 2021 کے لئے ملک کے طاقتور ترین سو افراد کی فہرست جاری کی ہے۔
پوری فہرست میں ایک سو پینتیس کروڑ لوگوں کے ملک میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک ایک بھی ‘’طاقتور‘ایڈیٹر یا صحافی کانام موجود نہیں ہے۔ کیا یقینی طور پر ایسی بدقسمتی کی صورتحال پیدا ہورہی ہے کہ اس وقت ملک میں کوئی طاقتور صحافی؍ ایڈیٹر باقی بچا نہیں ہے؟ یا اس فہرست میں شامل سو افراد اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ کوئی بھی صحافی یا ایڈیٹر ان کے بیچ جگہ بنا ہی نہیں سکتا تھا؟
رویش کمار اور ان جیسےایک سو -پچاس یا ہزار دوہزار معلوم -نامعلوم صحافیوں یا ‘’ایڈیٹرز گلڈ‘ جیسی کچھ تنظیموں کی بات چھوڑ دیں جو ہر طرح کے حملوں کو برداشت کرتے ہوئے بھی آزادی اظہار رائے میں مصروف ہیں۔ تو کیا کوئی پوچھنا نہیں چاہئے کہ ملک میں لاکھوں کی تعداد میں جو باقی صحافی اور ایڈیٹرز ہیں وہ اس وقت حقیقت میں کیا کام کررہے ہوں گے؟ کس اخبار اور کس چینل میں کس طرح کی خبروں کے لیے وہ اپنام خون پسینہ ایک کررہے ہوں گے ؟
’’صحافت ختم ہورہی ہے اور صحافی بڑھ رہے ہیں! ’ٹھیک اسی طرح کھیت ختم ہو رہے ہیں اور زرعی مزدور بڑھ رہے ہیں۔ کھیتی کی زمین بڑے گھرانے خرید رہے ہیں اور اب وہ ہی طے کرنے والے ہیںکہ اس پر کونی سی فصلیں اگانی ہیں۔‘‘
کارپوریٹ سیکٹر کے ذریعے میڈیا اداروں کو بھی حاصل کیا جارہا ہے اور صحافیوں کو بکنے والی خبروں کے حساب سے لکھوایا جارہا ہے۔ کسان اپنی زمین کو خریدے جانے کے خلاف جد وجہد کررہے ہیں ۔ میڈیا کی پوری زمین ہی کھسک رہی ہے مگر وہ مین ہے۔ غور کرنا چاہئے کہ کسانوں کے آندولن کو میڈیا میں اس وقت کتنی جگہ دی جارہی ہے؟ د ی بھی جارہی ہے یا نہیں ؟ جبکہ اصلی آندولن ختم نہیں ہوا ہے۔ صرف میڈیا میں ختم کردیا گیا ہے۔
آسام کے کچھ اخبارات میں جو تجربہ ہوا ہے۔ وہ ملک کے دوسرے اخبارات اور چینلوں میں آپ نے الگ الگ شکل میں برسوں سے مسلسل چل رہا ہے۔ وہ ٹھنڈ، گرمی ،برسات کی طرح ناظرین اور قارئین کو کبھی کبھی محسوس ضرور ہوتا ہے ، لیکن خدا کی طرح نظر نہیں آتا۔
میڈیا کنٹرول
ہنگامی صورتحال کسی بھی طرح کا حال ، عوام بعد میں خوفزدہ ہوتے ہیں۔میڈیا کاایک بڑا طبقہ تو ڈرنے کی ضرورت پیدا ہونے سے پہلے ہی کانپنے لگتا ہے۔ سرکاریں جانتی ہیں کہ میڈیا پر کنٹرول کس دیاجائے تو پھر ملک کو چلانے کے لیے عوام کی حمایت کی ضرورت بھی ایک بڑی حد تک اپنے آپ کنٹرول ہوجاتی ہے۔ آپ بھی سوچئے کہ آخر کیوں؟ ’د ی ٹیلی گراف ‘ جیسا اخبار کہیں اور پڑھنے یا دیکھنے کو نہیں مل پاتا ہے۔