تحریر:قاسم سید
کابینہ میں ردوبدل کوئی نئی بات نہیں۔مگر کرن رجیجو کو اچانک اس طرح ہٹایا جاۓ گا اس کی توقع نہیں کی گئی تھی ۔وہ پی ایم کے پسندیدہ وزیروں میں سے تھے۔کرناٹک الیکشن ہارنے کے بعد اس تبدیلی کو اس کے تناظر میں دیکھا جاۓ تو کیا بے جے پی بڑبولے اور بے تکے بیان دینے والے کو ہٹاکر کوئی مسیج دینا چاہتی ہے ؟شاید یہ سوچنا جلدبازی اور غیر عملی ہوگا ،کیونکہ یہ فہرست لمبی ہے اس میں گری راج سنگھ اور گولی مارو۔۔سمیت کئی نام نامی اسم گرامی سامنے آجائیں گے،توکیا سپریم کی خفگی اس کی وجہ ہوسکتی ہے ،کیا سابق ججوں میں سے کچھ کو دیش دروہی’ اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا ممبر کہنا سبب ہوسکتا ہے ؟شاید یہ سرکار ایسی باتوں پر ایکشن نہیں لیتی کیونکہ کابینہ میں رام زادوں کا ۔۔۔ سےموازنہ کرنے والے بھی موجود ہیں اور ایسے بیان دینے والے ترقی پاتے ہیں جیسے انوراگ ٹھاکر۔ سچ تو یہ ہے ان میں سے کوئی وجہ نہیں لگتی پھر بھی کرن کو وزارت قانون جیسی سنجیدہ بھاری بھرکم ذمہ داری سے ارتھ سائنس جیسی غیراہم وزارت میں منتقلی کسی سزا سے کمنہیں ہے۔اصل وجہ تلاش کرنے کے لیے اس فیصلے کو ڈی کوڈ کرنے کی ضرورت ہے
کرن رجیجو نے وزیر قانون کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کئی تنازعات پیدا کیے ہیں۔ کرن نے ججوں کی تقرری کے کالجیم نظام، سابق ججوں کی سرگرمی جیسے مسائل پر اپنے انتہائی قابل اعتراض تبصروں سے تنازعہ کھڑا کر دیا ۔یہ تاثر جانے لگا کہ عدلیہ اور سرکار میں ٹکراؤ ہے جو روزبروز شدت اختیار کررہا ہے،خاص طور سے جسٹس چندر چوڑ کے چیف جسٹس آف انڈیا کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ،کئی مرتبہ سالیسٹر جنرل اور چیف جسٹس میں گرما گرمی کے مناظر دیکھنے میں آۓ اور میڈیا کی سرخیاں بنے۔
فارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال نومبر میں سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے بھی رجیجو کے تبصروں پرسخت ناراضگی ظاہر کی تھی۔ دو ججوں کی بنچ نے کہا تھا کہ شاید حکومت ججوں کی تقرری کو منظوری نہیں دے رہی ہے رجیجو نے نومبر 2022 میں کہا تھا کہ ججوں کی تقرری کا کالجیم نظام آئین کے لیے اجنبی ہے،کالجیم سسٹم میں بہت سی خامیاں ہیں اور لوگ اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ بعد میں انہوں نے کہا تھا کہ ریٹائرڈ جج اور بعض کارکن بھارت مخالف گینگ کا حصہ ہیں۔یہ ان کا سخت ترین بیان تھا ،بعض ریٹائرڈ جج سرکار کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھاتے رہے ہیں ۔اور اسے جرم نہیں کہہ سکتے۔تبصروں کے خلاف ایک پی آئی ایل بھی دائر کی گئی تھی،تعتاہم سپریم کورٹ نے اس کو خارج کر دیا تھا۔
بنیادی بات یہ ہے کہ رجیجو کے وزیر قانون رہتے سرکار کو سپریم کورٹ میں متعدد معاملوں میں شکست سے دوچار ہونا پڑا الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کے انتخاب کا معاملہ ہو یا اڈانی پر کمیٹی بنانے کا ،حبل ہی میں حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایل جی بمقابلہ دہلی حکومت کے اختیارات کے معاملے میں دہلی حکومت کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ اس طرح کئی حساس مقدموں میں مرکز کو منھ کی کھانی پڑی ،ان کی دلچسپی مسلم مخالف بیان دینے، سرکار مخالفوں کو ‘دیش دروہی’ کہنے میں زیادہ رہی ۔محکمہ قانون عدلیہ میں سرکاری موقف کو بہتر ڈھنگ سے رکھنے میں ناکام رہا ۔شکست کا لفظ مودی سرکار کی ڈکشنری میں نہیں ہے مگر وقفہ وقفہ سے مل رہی ہے ۔اس لیے رجیجو کے :دھڑن تختہ’ ہونے میں ایک بھی آنسو نہیں ٹپکا