تحریر:قاسم سید
کرناٹک میں کانگریس کی سنامی اور وزیراعظم مودی و وزیرداخلہ و بی جے پی کے چانکیہ کہے جانے والے امت شاہ کی ان تھک محنت کے باوجود پارٹی کی بےحد شرمناک شکست کو عوام کے بدلتے موڈ،خواب سے جاگنے،سحر زدہ سیاست کا خمار اترنے،چڑھتے دریا کا پانی اترنے اور اندھی کے تھمنے کا نام دینا جلد بازی اور کسی ٹیم کے سیریز ہاردینے سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔بی جے پی آسانی سے ہار ماننے والی پارٹی نہیں ہے ۔اس نے روایتی سیاست کی بساط الٹ کر اس کھیل کے نیے ضوابط بناۓ ہیں۔پارٹی کو انتخابی مشنری میں بدل دیا جو صرف جیتنا جانتی ہے ،جیتنے کا جنون نس نس میں ہلکورے مارتا ہے،بدمست ہاتھی کی طرح جو سامنے آیا روند ڈالا۔ بہرحال یہ نتائج چند باتوں کی طرف اشارہ ضرور کرتے ہیں مثلاً
*مودی ناقابل شکست ہرگز نہیں ،یہ ممتا اور کیجریوال بھی ثابت کرچکے ہیں کہ ان کو اندھا دھند کارپٹ بمباری والی تشہیری مہم ،نامنہاد مودی میجک اور بے پناہ وسائل کے باوجود ہرایا جاسکتا ہے ۔ اب کھڑگے، راہل کی ٹیم نے ثابت کردیا ضرورت کسی ہوئی بالنگ اور یارکر پھینکنے کی ہے ،بی جے پی کے سامنے نوبالنگ کی کوئی گنجائش نہیں ورنہ وہ نو بال پر فری ہٹ ملنے پر گیند میدان سے باہر پھینکنے میں ماہر ہے ۔کھڑگے کے زہریلے سانپ سے لے کر بجرنگ دل کے خلاف کارروائی کے وعدے پر بی جے پی نےخوب چوکے چھکے لگائے ،مگر اس بار سامنا بدلی ہوئی اور غلطیوں سے سبق لینے والی کانگریس سے تھا دوسرے یہ کرناٹک تھا یوپی،ہریانہ نہیں جہاں ہندوتو کا جادوسر چڑھ کر بولتا ہے اور ووٹوں سے جھولیاں بھر دیتا ہے،چنانچہ عوامی ایشوز کے سامنے یہ بیک فایر کرگیا مودی کی ریلیاں اور روڈ شو فلاپ ہوگیے۔
*پہلی بار کانگریس نے بی جے پی کو اپنی پچ پر لاکر کھلایا بجرنگ دل کو بجرنگ بلی کے برابر کھڑا کردینا ہندوسماج کو پسند نہیں آیا اور نہ ہی گالی والا وکٹم (یعنی مظلومیت والا) کارڈ چلا
*کانگریس چالیس پرسنٹ کا بیانیہ سیٹ کرنے میں کامیاب رہی اور اس سے ایک انچ نہیں ہٹی،اس نے مہنگائی اور بے روزگاری کے ایشو کو کامیابی کے ساتھ راے دہندگان کے سامنے رکھا خاص طور سے غریب طبقے اور دیہی راۓدہندگان پر فوکس کیا۔جو ووٹ میں تبدیل ہوتا نظر آیا۔
*مضبوط مقامی لیڈرشپ کی ان تھک محنت ،اتحاد،
کارکنوں میں جوش و خروش،جارحانہ تیورکام کرگیے۔کانگریس پہلی مرتبہ من سے لڑتی نظر آئی جس کو ایشوز کا پتہ تھا،مرکزی لیڈرشپ بھی زمین پر پسینہ بہارہی تھی۔
*مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ عوام کو ہندوتوا کا تڑکا،پی ایم کا جلسوں میں جے بجرنگ بلی کا نعرہ ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہا تھا کیونکہ انہیں دو روٹی کی ضرورت تھی۔
*دی کیرل اسٹوری،مسلمانوں کے خلاف نفرتی باتیں،لو جہاد ،حجاب،حلال ،مسلم ریزرویشن،ٹیپوسلطان ,سی ایم یوگی کا انداز جارحیت اور بلڈوزر ماڈل بی جے پی سرکار سے ناراضگی اور حقیقی ایشوز کی حدت میں میں دھواں دھواں ہوگیے. بی جے پی نوشتہ دیوار پڑھ نہ سکی،اسے مودی پر بے حد بھروسہ تھا کہ ہزار سوراخ کے باوجودکشتی بھنور سے نکال لے جائیں گے۔
*مودی کی امیج میں واضح دراڑیں نظر آنے لگی ہیں ۔جی ٹونٹی کی چمک دمک، چین کو دھول چٹا دینے،پاکستان کی طبعیت سدھار دینے کی للکار،عالمی لیڈر بناکر پیش کرنے کی مہم ،ایک خاص طبقہ کو مٹی میں ملادینے کی دھمکیاں ہندو ووٹروں پر اثر ڈالنے میں ناکام رہیں۔
*جے ڈی ایس کی جگہ کانگریس کے پلڑے میں وزن ڈال دینے کی اقلیتی ووٹروں کی دور رس حکمت عملی نے بی جے کے خوابوں پر پانی پھیر دیا جو کمارا سوامی کو ساتھ لے کر حکومت سازی کی اسٹریٹیجی بنارہی تھی ۔مسلمانوں کا ووٹ منتشر نہیں ہوا۔ انہوں نے یکسو ہوکر کانگریس کو ووٹ دیا اور ان کے 9نمائندے اسمبلی میں پہنچ گیے۔
ان چند نکتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی ناقابل تسخیر،مافوق الفطرت ،ناقابل شکست نہیں ہیں ۔صحیح حکمت عملی،مضبوط قیادت اور عوام کے دل پر کامیاب دستک کی ضرورت ہے،بی جے پی کا مقابلہ بی جے پی کی طرح کرنے سے اسے دھول چٹائی جاسکتی ہے،راشٹرواد،ہندوتوا،مذہبی صف بندی سپلیمنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں جیسے ہانڈی میں بگھار۔علاوہ ازیں اپنی پچ پر مضبوطی سے ٹک کر کھیلا جاۓ اور داعی انداز نہ اپنایا جاۓ ،سوشل میڈیا کی طاقت کا بھرپور استعمال کیاجاۓ،کانگریس نے یہ سب کردکھایا پہلی بار بی جے پی کانگریس کے جال میں الجھ گئی نتیجہ سامنے ہے۔
جہاں تک مسلمانوں اور ان کی قیادت کا معاملہ ہے ان کے لیے کرنے کو کچھ نہیں تھا،سیاسی منظرنامہ میں بظاہر کوئی جگہ نہیں ہے،سیکولر پارٹیاں ہندو بیک لیش کے خوف سے نام تک نہیں لیتیں اقلیتوں کہہ کر آگے نکل جاتی ہیں اس لیے خاموش تماشائی بنے رہنے کی جو پوزیشن اختیار کی ہے اسی میں عافیت ہے وہ اتحاد،امن کانفرس کرتی رہیں۔سرکار کے دربار میں وقتاً فوقتاً حاضری دے کر وفاداری کا یقین دلاتی رہیں اسی میں ملک وملت کا بھلا اور ان کی کامیابی ہے۔2024میں وہ کیا کرادر ادا کرسکتے ہیں کسی کا دم چھلا بننے کی بجاۓ اندر سے اس کا جواب تلاش کریں۔۔۔۔