رپورتاژ:ڈاکٹر شاہد حبیب
اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کی جانب سے 27 رجب المرجب 1446ھ مطابق 28 جنوری 2025ء کو ایک اہم علمی مذاکرہ جوگابائی، نئی دہلی میں واقع اکیڈمی کے دفتر کے سمینار ہال میں منعقد کیا گیا۔ اس علمی مجلس کا موضوع "علماء ہند کا علمی سرمایہ: ماضی، حال اور مستقبل” تھا۔ پروگرام کی صدارت پروفیسر عبد الماجد قاضی ندوی (سابق صدر شعبۂ عربی، جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے کی، جب کہ ڈاکٹر محمد رحمت اللہ ندوی (دوحہ، قطر) نے موضوع پر محاضرہ پیش کیا۔ اس مجلس میں ارباب علم و دانش کی بڑی تعداد میں موجودگی نے پروگرام کی علمی سطح کو مزید بلند کر دیا۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ اس کے بعد فقہ اکیڈمی کے رکن مولانا امتیاز صاحب نے مہمانوں کا تعارف پیش کیا اور مجلس کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی۔ نظامت کے فرائض مولانا صفدر زبیر ندوی نے احسن طریقے سے انجام دیے۔
ڈاکٹر محمد رحمت اللہ ندوی نے متعینہ موضوع پر اپنے محاضرے کا آغاز کیا۔ انھوں نے محاضرے میں موضوع سے انصاف کرنے کی کوشش کی، لیکن موضوع کی وسعت کے پیش نظر انھیں اسے محدود کرنا پڑا۔ اپنے ایک گھنٹے کے خطاب میں انھوں نے پہلے علمی سرمایہ یا میراث کسے کہا جائے، اس پر روشنی ڈالی اور پھر ہندوستان کے علماء کی خدمات، ان کے علمی ذخیرے، اور مستقبل میں کرنے کے علمی کام اور اس کے چیلنجز پر روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر ندوی نے کہا کہ ہمارے دینی مدارس میں فقہ و حدیث کی کتابوں کی تدریس تو ہوتی ہے، لیکن فن کی تدریس کا فقدان ہے۔ انھوں نے مختلف مدارس کا نام لے کر اس کے نصاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں فن نہیں بلکہ فن کی مخصوص کتابوں کی تدریس پر ساری توجہ صرف کر دی جاتی ہے۔ (قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جامعۃ الفلاح کا نصاب فن کی تدریس پر ہی مشتمل ہے)۔ انھوں نے کہا کہ اگر طلبہ فنون سے ناواقف ہوں تو وہ اسلامی علوم کی حقیقی روح سے محروم رہ جاتے ہیں اور ان کا فہم محدود ہو جاتا ہے۔ فن کی تدریس نہیں ہوگی تو ہمارے مفتیان کرام فتویٰ لکھتے ہوئے "کذا فی الصنائع والبدائع” وغیرہ کہہ کر فتویٰ کو مکمل سمجھنے کی غلطی کرتے رہیں گے۔ حالانکہ اسلامی تراث کی ترتیب کے یہ خلاف ہے۔ قرآن ، حدیث ، اقوال صحابہ، اور ائمہ مجتہدین کے بعد مفتیانِ کرام کے فتاویٰ کا نمبر آتا ہے۔ لیکن اس ترتیب کو الٹ دینے سے علمی سرمایے سے صحیح استفادہ ممکن نہیں۔
ڈاکٹر ندوی نے اداروں کے ذریعے انجام پانے والے علمی کارناموں کا ذکر کیا لیکن وقت کی تنگی کی وجہ سے صرف ایک پر اکتفا کیا اور دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد کی خدمات پر خصوصی گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ یہ ادارہ اسلامی تراث کی خدمت کے لیے ایک مثال ہے۔ اس ادارے نے ایسی ایسی کتابیں شائع کیں جو عالم عرب میں بھی ناپید تھیں۔ ان خدمات نے علمی دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا۔ علامہ عبد الحئی لکھنوی کے علمی کارناموں پر خصوصی روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا کہ علامہ نے صرف 39 سال کی مختصر زندگی پائی لیکن 110 ایسی کتابیں لکھیں جو موسوعہ کہی جاسکتی ہیں، ان کی تصانیف کا معیار ایسا تھا کہ عرب دنیا بھی ان پر فخر کرتی ہے۔ ابوالفتاح عبدالغدہ سمیت دیگر علماء نے ان کی خدمات کا دل کھول کر ذکر کیا ہے اور شکایت بھی کی ہے کہ ان کی کتابیں ہندوستانی مکتبات میں دستیاب کیوں نہیں ہے، حالانکہ ابن الجوزی اور طبری کے پایے کے وہ عالم ہیں، اگر ان کی زندگی کے ایام اور ان کے لکھے اوراق کا موازنہ کیا جائے تو اوراق زیادہ ہو جائیں گے۔ "کفایت الاخیار” (چھ جلد) جو مخطوطے کی شکل میں تھی، اس پر کام کر کے "الفوائد البہیہ” کے نام سے شاہکار لکھ کر دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ پہلی ایسی عبقری شخصیت ہیں جن کو چالیس سال کی عمر سے پہلے عبقری کا خطاب دیا گیا.پروگرام کے آخر میں پروفیسر عبد الماجد قاضی ندوی نے اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر ندوی کے محاضرہ کی تعریف کی، لیکن ساتھ ہی اس جانب توجہ دلائی کہ اس طرح کے اہم موضوعات پر زیادہ وقت مختص کیا جانا چاہیے یا پھر کسی خاص پہلو کو موضوع گفتگو بنایا جانا چاہیے۔ بہرحال انھوں نے مہمان محاضر کی علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کے علماء علامہ عبد الحئی لکھنوی، ابن الجوزی، ابن حجر، ابن تیمیہ، اور دیگر علمی شخصیات کی زندگیوں کا مطالعہ اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ محنت، تحقیق، اور علم دوستی کے ذریعے ہم اپنے معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ان کی خدمات کسی معجزہ یا کرامت سے کم نہیں تھیں۔ ان کی زندگیاں علم کے لیے وقف تھیں۔ لیکن آج کے علماء تن آسانی اور تقلیدی رویے کا شکار ہو چکے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔ انھوں نے نئے علماء کو تصنیف میں محققانہ شان لانے کی جانب متوجہ ہونے کی تلقین کی۔ مثال میں انھوں نے نوجوان انگریز مصنفہ آڈرے ٹرشکی (Audrey Truschke) کی کتاب "اورنگ زیب: د مین اینڈ متھ” کی طرف اشارہ کیا۔(نام نہیں لیا)۔ انھوں نے کہا کہ اس نوعمر مصنفہ نے تمام زبانوں کے اصل ماخذوں کا استعمال کرتے ہوئے اورنگ زیب کو ایک متوازن انسان کے طور پر پیش کیا اور دوست و دشمن کی جانب سے افراط و تفریط کا شکار ہونے کی وضاحت کی اور ان کے تعلق سے پائے جانے والے مغالطوں کو دور کیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علمی دیانت داری ہر موضوع پر تحقیق کا تقاضا کرتی ہے۔ انھوں نے مستشرقین کی علمی خدمات کو بھی سراہا اور کہا کہ مستشرقین نے اسلامی علوم کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ عرب دنیا میں کچھ ایسے علماء اور ماہرین سامنے آئے ہیں جو علمی ورثے کو ترجمے اور تحقیق کے ذریعے محفوظ کر رہے ہیں۔ لیکن عالم عرب خاص کر مصر میں کچھ ایسے علماء بھی سامنے آ گیے ہیں جو اس طرح کے ترجمے کر رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف ایک سیسی نہیں ہے بلکہ ہر شاخ پہ ایک ایک سیسی بیٹھا ہوا ہے جو علم کے میدان میں بھی قبضہ جما کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی کے ساتھ انھوں نے کہا کہ ایسے کئی اساتذہ ہیں جن کی تصنیفی خدمات تو نہیں یا کم ہیں لیکن وہ شاگردوں کی فیض رسانی کے معاملے میں سب سے آگے ہوتے ہیں، ان کی خدمات کو بھی یاد کیا جانا چاہیے۔
پروگرام کے دوران درج ذیل نکات پر خصوصی توجہ دی گئی:
1. اسلامی علوم کی تدریس میں فنون کی شمولیت کی اہمیت۔
2. دائرۃ المعارف العثمانیہ اور دیگر اداروں کی خدمات کا اعتراف۔
3. ماضی کے علماء کی علمی خدمات کو محفوظ کرنے اور نئی نسل تک منتقل کرنے کی ضرورت۔
4. تحقیق کے میدان میں مستشرقین کی خدمات کا تنقیدی جائزہ۔
5. عرب دنیا میں ہندوستانی علماء کے علمی اثرات کا جائزہ۔
پروگرام علمی اعتبار سے نہایت کامیاب رہا، لیکن چند پہلوؤں پر مزید بہتری کی گنجائش تھی۔ مثلاً، موضوع کی وسعت کے پیش نظر یا تو وقت بڑھایا جانا چاہیے تھا یا پھر کسی خاص پہلو پر گفتگو کی جانی چاہیے تھی (جیسا کہ صدرِ مجلس نے بھی اشارہ کیا)۔ مزید برآں، سامعین کو سوال و جواب کے لیے وقت دیا جانا چاہیے تھا تاکہ وہ اپنے اشکالات اور آراء کا اظہار کر سکیں۔ ورنہ محاضرے کا مطلب ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔
اس طرح اسلامک فقہ اکیڈمی کا یہ پروگرام علم و تحقیق کی روح کو بیدار کرنے کی ایک اہم کوشش تھی۔ ایسے پروگرام نہ صرف علماء اور طلبہ کے لیے علمی رہنمائی کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ ماضی کے علمی سرمائے کو زندہ رکھنے اور حال و مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کا حوصلہ بھی فراہم کرتے ہیں۔