تحریر: یوگیندر یادو
ملک کی مین اسٹریم میڈیا کی ساکھ تو کب کی تار تار ہوچکی ہے ، لکھیم پور کھیری کے واقعہ کے ساتھ مین اسٹریم میڈیا کی اس تار تار ساکھ کے تابوت میں ایک اور کیل ٹھوک گئی ہے ۔ نا اسے تابوت میں ٹھوکی آخری کیل مت سمجھ لیجئے گا جیساکہ محاورے میں کہتے ہیں۔
مین اسٹریم میڈیا کی ساکھ کے تابوت میں یہ کیل ایسی نہیں ہے کہ اخبارات کی پرنٹ تعداد اور نیوز ٹی وی چینلوں کی ٹی آر پی کی اندھی دوڑ پر بریک لگاپائے۔ تابوت میں ٹھوکی یہ کیل ایسی بھی نہیں ہے کہ ری پبلک ٹی وی اور نیوز 18 جیسے چینلز سے جڑے ناظرین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے، لیکن لکھیم پور کھیری کے واقعے کے ساتھ ، ملک کی مین اسٹریم میڈیا کی ساکھ کے تابوت میں ٹھوکی اس کیل سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ جس سچائی کےبیان کا دعویٰ لوگوں کے درمیان میڈیا کیا کرتی ہے ، وہ دعویٰ لوگوں کےخیالات کی دنیا میں دھندلا گیا ہے ۔
کسان تحریک کے عروج کے ساتھ ، یہ سوچ کہ میڈیا کسی کی ساکھ بنا اور بگاڑ سکتی ہے، سر کے بال آ کھڑاہوا ہے: کہاں تو میڈیا کسان آندولن کی ساکھ گرانے میں لگی تھی اور کہاں عالم یہ آپہنچا ہے کہ اب کسان آندولن کی وجہ سے ہی میڈیاکی ساکھ داغدار ہو رہی ہے ۔
اور جو ایسا ہو رہاہے تو اس کی واجب وجوہات بھی ہیں۔ غور کیجئے کہ لکھیم پور کھیری کی رونگٹےکھڑے کردینے والےواقعہ پر میڈیا کا ردعمل کیارہا۔ مین اسٹریم میڈیا نے پہلے تو نانکور اور ڈھیلا -سیلی سے کام لیا۔ واقعہ مقامی سطح کی میڈیا کی موجودگی میں دن کے تقریباً 3 بجے ہوا ۔ واقعہ کو لےکر معتبر خبریں چند منٹوں کےبعد ہی آنے لگیں، ٹھیک 3 بج کر 30 منٹ پر سنیکت کسان مورچہ ( ایس کے ایم) نے میڈیا کو آگاہ کر دیا تھا، واقعہ کو انجام دینے والے کی شناخت میڈیا کو بتا دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود اے این آئی کی پہلی خبر شام کے 5 بجے سےپہلے نہیں آئی۔ گویا اے این آئی نےانتظار کیا کہ حکمراں طبقہ واقعہ کو لے کر اپنی پسندیدہ کہانی بن اور سنا لے تو اے این آئی لکھیم پور کھیری کا واقعہ کےبارے میں اپنی خبر چلائی۔
اس کے بعد میڈیا نے جعل سازی کا سہارا لیا۔ لکھیم پور کھیری کے واقعہ پر پردہ ڈالنے کے لیے شروعاتی گھنٹوں میں ایک جھوٹی کہانی یہ پکائی اور پروسی گئی کہ بھیڑ نے پتھراؤ کی تھی ،حالانکہ سنیکت کسان مورچہ نے پریس کانفرنس کرکے اس جھوٹ کی کاٹ کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی ، اس کے بعد مین اسٹریم میڈیا نے توجہ ہٹانے کا اپنا مہاگیا شروع کیا۔
کہانی یہ چلائی گئی کہ کروز شپ پر ڈرگس پارٹی میں ایک سپراسٹار اداکار کے لاڈلے کے پاس سے 10 ملی گرام ہیروئن برآمد ہوئی تاکہ لوگوں کی نظر لکھیم پورکھیری کے واقعہ سے ہٹ جائے اور اتنے سے کام نہیں چلا تو واقعہ کی فرضی سرخیاں لگاکر لیپاپوتی کرنے کی کوشش کی گئی۔
ملک بھر میں سب سے زیادہ تعداد میں بکنے والے اخبار دینک جاگرن کو تو اس کام کے لیے جیسے تغمہ ملنا چاہئے۔ اس اخبار نے سرخی لگائی : ’’ اترپردیش میں شرپسند کسانوں کا فساد، 6 کی جان گئی۔‘‘
ایسا نہیں ہے کہ مین اسٹریم میڈیا کے اس طرح کے اقدامات کے خلاف سچائی کا پتہ دینے والی آوازیں نہیں اٹھی۔ ایسی آوازیں زیادہ تر انہیں چند معروف جگہوں سے اٹھی جہاں سے اس کے پہلے بھی اٹھتی آئی ہیں اور ایسی آواز اٹھانے والوں میں انٹرنیٹ پورٹل اور سوشل میڈیا شامل ہیں۔
مین اسٹریم میڈیا کے ایک چھوٹے سے حصے نے بڑی بہادری سے اپنی نظر اصل مجرم پر جمائے رکھی،لیکن اتنے بھر سے پوری میڈیا کی شبیہ سنورنے سے رہی۔ میڈیا کو اب ایک لمبا عرصہ گزارنا ہوگا ڈ، تب کہیں جاکر اس کے دامن پر لگے خون کے دھبے دھل سکیں ، تو دھولیں۔ فیض احمد فیض نے ایک دیگر حوالہ سے کہا تھا : ’’ خون کے دھبے دھولیں گےکتنی برستاؤں کے بعد‘‘
عام کسان یا کازراعت کے مسائل اٹھانے والے کارکن ان باتوں کو ٹھیک ٹھیک جان پکڑ نہیں پاتے لیکن ان باتوں کی وجہ سے میڈیا میں جو کہانی پیش کی جارہی ہے اس کے ذائقہ خود کو محسوس کرتےہیں ۔
’گوڈی میڈیا‘ کسی چھوٹے سے محدود کونے میں برتا جانے والا محاورہ یا کہاوت نہیں ، کسان تحریک میں گوی میڈیا کا محاورہ سب سےزیادہ مشہور محاوروں میں سے ایک ہے ۔
دیہی ہندوستان کے زرعی اور غیر زرعی آباد ی کے ایک وسیع طبقے کے درمیان میڈیا کو لے کر کیا عام تاثر بنا ہے ۔ یہ محاورہ اس کا پتہ دیتا ہے کہ کسان تحریک کےحوالہ سے بھلے ہی یہ محاورہ شہری طبقہ میں رائج نہیں ہوا ہو لیکن کووڈ کی دوسری لہر کے دوران شہری متوسط طبقے بھی ایسے ہی نتائج پر پہنچا تھا۔تو یو سمجھئے کہ گودی میڈیا کامحاورہ سماج کے ہر طبقے میں ایک ایک کر پکڑ بنا رہاہے لیکن ابھی اس محاورہ نے اتنا زور نہیں پکڑا ہے کہ میڈیا کو اپنی قانونی حیثیت کے بحران پریشان کرنے لگے ۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر مواصلات اور رائے عامہ کے درمیان اس طرح کا خلا پیدا کرنا خود ہماری جمہوریت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
(یوگیندر یادو سوراج انڈیا کے رکن اور جے کسان آندولن کے شریک بانی ہیں،یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں)