تحریر: کرشن پرتاپ سنگھ
لکھیم پور کھیری کےتکو نیہ میں گزشتہ تین اکتوبر کو جو کچھ ہوا، اس کو لےکر بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخالف پارٹیوں کے فعال ہونے کے بعد کئی حلقوں میں یہ سوال باربار اور کچھ زیادہ ہی زور دےکر پوچھا جانے لگا ہے کہ وہ اس مسئلے پر اتنی سیاست کیوں کر رہے ہیں؟پوچھنے والےحضرات کو اتنا بھی یاد نہیں رہ گیا ہے کہ ابھی کل تک وہ انہیں پارٹیوں کو مردہ بتاکر الزام لگا رہے تھے کہ وہ ٹھیک سے اپوزیشن کا رول نہیں نبھا پا رہے۔ کئی دوسرے تو اس نتیجے تک بھی جا پہنچے ہیں کہ ان پارٹیوں کی اس سیاست کا واحد مقصد وزیر اعظم نریندر مودی اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو بدنام کرنا ہے۔ اپنے اس نتیجے پر زور دیتے ہوئے وہ کچھ ایسا جتا رہے ہیں، جیسے ان پارٹیوں کا وزیر اعظم اوروزیر اعلیٰ کو بدنام کرنا سیاست کرنے سے بھی بڑا جرم ہو!
گزشتہ بدھ کو کانگریس رہنما راہل گاندھی لکھیم پور کھیری جا رہے تھے تو صحافیوں نے ان سے بھی پوچھا کہ اس معاملے پر سیاست کیوں کی جا رہی ہے؟راہل نے اس کا جواب دیتے ہوئے کم از کم دو قابل غور باتیں کہیں۔ پہلی:سیاست جمہوریت میں نہیں تو اور کس طرز حکومت میں کی جائےگی؟ اور دوسری:ایسے سوال پوچھنے والے صحافیوں کو خود بھی آئینہ دیکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ سیاست کرنے کا جرم آمریت میں ممنوع ہوتا ہے،جمہوریت میں نہیں اور کسی ظلم کے شکار لوگوں پر دباؤ بنانا سیاست کرنا ہے تو صحافیوں کو بھی اسے برتنا چاہیے، کیونکہ یہ ان کے فرض کا حصہ ہے۔
بات کو آگے بڑھائیں تو یہ اس ملک میں جمہوریت اور سیاست دونوں کی مشترک پریشانی ہے کہ شعورکی بیداری کے سارے دعووں کے باوجود عوام میں ان کی واضح سمجھ کا فقدان ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ اس کی وجہ سے ہماری عوام کا بڑا حصہ ابھی بھی اپنے غلامی کے زیادہ نزدیک ہے، شہری کے کم۔چونکہ سات دہائی پہلے ہم نے اپنا جمہوری نظام سابقہ راج شاہی نظام کو ہراکر نہیں بلکہ اس سے سمجھوتہ کرکے پایا تھا، ابھی بھی کئی معنوں میں جمہوریت کے لبادے میں راج شاہی جیسے ہی ظلم برداشت کرنے کوملعون ہیں اور ہمارے منتخب نمائندوں میں سے کئی‘منتخب مہاراجاؤں’جیسےسلوک کے عادی ہیں، اس لیے وہ لکیراکثر دھندلی ہوتی رہتی ہے، جس کے اس پار آکر عوام شہری میں بدل جاتے ہیں اور دوسری جانب جاتے ہی شہری عوام میں۔
یہاں ‘عوام’ اور ‘شہری’ کے بیچ کے بنیادی فرق کو گانٹھ باندھ لینا ضروری ہے۔ عوام ہمیشہ اپنے سارے سنسار کو، یہاں تک کہ سپنوں کو بھی، اپنے راجہ کی آنکھ سے دیکھنے اور راجاکے حکم کو ماننے کو ملعون ہوتی ہے، جبکہ شہری حکومت کے مزاج اور خواہشات کے کی تعمیر میں شریک ہوا کرتے ہیں۔جی ہاں، سیاست میں بھی اور تب سیاست جرم نہیں ان کا حق بن جاتی ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو بدنام کرنے تو کیا انہیں بےدخل کرنے کی کوشش بھی تب جرم نہیں، بشرطیکہ وہ پرتشددنہ ہوں۔اگر ہم اپنے جمہوری شعور کو وقت کے ساتھ فروغ دے پائے ہوتے اور ہمارے نمائندوں کی وجہ سے اس کاعوام مخالف روپ پہلے کی ہی طرح ستاتا نہیں رہتا، تو سمجھنے میں پریشانی نہیں ہوتی کہ سیاست کے جس ماڈل کی مخالفت سےملک کا ملک مکمل قدیم ادب بھرا پڑا ہے، وہ کچھ اور ہوا کرتی تھی۔
بلاشبہ اتناپراگندہ کہ اس کے لیے‘ویشیا’ جیسی اصطلاح کااستعمال کیاجاتا تھا۔ اسے برتنے والے راجہ کو تو دس ہزار جانوروں کو ذبح کر چکے قصائی سے بھی زیادہ ظالم بتایا جاتا تھا!یہاں تک کہ بھگوانوں کے زیادہ تر اوتار ظالم بادشاہوں کو قتل کرنے کے مقصد سے ہی ہوئے بتائے گئے ہیں اور ایسی کتھائیں باربار دہرائی گئی ہیں کہ راجاؤں کے ظلم سے تنگ ہوکر زمین نے برہما کے پاس جاکر نجات دلانے کی دعا کی تو بے چین ہوکر برہما نےیقین دلایا کہ جلدی ہی بھگوان اوتار لےکر اس کی تمنا پوری کر دیں گے!المیہ یہ کہ اس ادب سے پیدا ہوئی سیاست کے راج شاہی تصور، جو ہمیشہ ظالم حکمرانوں کاراستہ ہموار کرتی رہی ہے، اتنی دہائی میں جمہوریت کی ہوا میں سانس لینے کے باوجود ہمارے دل و دماغ میں ایسے موجودہے کہ نکلنے کو نہیں آ رہا! اسی لیے لکھیم پور کھیری جیسے معاملوں میں منھ کھولنے اور سرکاروں سے سوال پوچھنے والوں پر سیاست کرنے کے الزام لگائے جانے لگتے ہیں تو پلٹ کر پوچھتے نہیں کہ آخر سیاست ہماری زندگی سے جڑے سوالوں پر نہیں تو اور کب کی جائےگی؟
عدم گونڈوی کےلفظوں میں وہ کب تک مائیک اور مالا کی مترادف بنی رہےگی؟ سوچتے بھی نہیں کہ کیا آج بھی، جب ہم راجاؤں کے اقتدارکوآخری سلام پیش کرکے ریاست کو اپنی اجتماعی ملکیت اور مجموعی طاقت کی علامت بنانے کے سفر پر چل پڑے ہیں اور جاننے لگے ہیں کہ نفرت ویشیا سے نہیں بلکہ اس کوویشیا بنانے والےنظام سے ہونا چاہیے، کیا تب بھی سیاست ہمارے نزدیک اتنی ہی ‘قابل مذمت’ یا ‘اچھوت ‘ ہونی چاہیے؟تب بھلا یہی کیسے پوچھیں کہ کہیں ان لوگوں نے اسے جان بوجھ کر تو قابل مذمت نہیں بنائے رکھا، جو وقت کے پہیے کو الٹا گھما کر ہمیں پھر سے راجاؤں و رانیوں کے زمانےمیں لےجانا یاجمہوری آقاؤں کو ان کے جیسا ہی شاطر بنانا چاہتے ہیں؟ تاکہ ہم سیاست سے نفرت کے زمانے میں ہی جیتے رہیں اور وہ اس کے مزے لوٹتے رہیں!
دراصل آج ہمیں یہ سمجھنے کی بہت ضرورت ہے کہ چونکہ ابھی بھی ملک کی سیاست ریاست کے غیراخلاقی سلوک ،رویے اور کارناموں کا مترادف نہیں بن پائی ہے اسی لیے اس کے مزے لوٹنے والے ملک پر کسی بھی وقت ظلم کرتے یا سوتے پکڑے جاتے ہیں تو بے شرم ہوکر کہنے لگتے ہیں کہ اس وقت سیاست بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ انہیں اپنی کارستانیوں پر پردہ ڈالنے کا محض یہی راستہ دکھتا ہے!لیکن سوال ہے کہ کسی ظلم کو سیاست نے ہی پروان چڑھایا ہویامدعو کیا ہو تو اس کٹہرےمیں کھڑاکرنے کا اس کے علاوہ اور کون سا طریقہ ہے کہ متبادل سیاست کی معرفت اس پر سوال کیا جائے؟ ایسی سیاست نہ کی جائے تو کیااقتدار کی مجرمانہ غفلت کوعوام کی کمزور یاداشت کے راستے باربار نئے مظالم کی تمہیدہی لکھتے رہنے دیا جائے؟ جو لوگ خود سیاست جاری رکھ کر دوسروں سے سیاست نہ کرنے کو کہہ رہے ہیں، ان کے منصوبوں کو تب کیسے ناکام کیا جائے؟
یوں اس سلسلے میں پوچھا جانے والا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ غصے ، تکلیف ، خواہشات و ارمانوں سے وابستہ سیاست کو کسی بھی وقت فعال ہونے میں کوئی رکاوٹ کیوں ہونی چاہیے؟ سو بھی، اس لیے کہ عام دنوں میں رہنما خود غرضانہ عزائم و الزام تراشیوں میں مصروف رہتے ہیں، انہوں نے سیاست کو ایسابدصورت بنادیا ہے کہ کئی لوگوں کی نگاہ میں وہی سب سے بڑی آفت بن گئی ہے؟جواب یہ سمجھنے میں ہے کہ جو لوگ اپوزیشن پر سیاست کرنے کی تہمت لگا رہے ہیں، وہ بھی ایک خاص طرح کی،ناپسندیدہ سوالوں سے بچنے کی،سیاست ہی کر رہے ہیں۔ جب وہ کسی بھی طرح کے ناپسندیدہ سوالوں کو ٹالنے کی حالت میں نہیں ہوتےتو چاہتے ہیں کہ وہ پوچھے ہی نہ جائیں!ان کابس چلے تو وہ ملک کو ایک کلینڈر تھما کر آرڈر جاری کر دیں کہ آگے سے ساری سیاست اسی کے مطابق ہوگی ‘پربھو کے گن گائیں گے’ کی طرز پر!
(بشکریہ: دی وائر)