ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
لکشدیپ عرب ساگر میں واقع ایک خوبصورت جزیرہ ہے جو اپنی خاص تہذیب و تمدن کے لئے اپنی نمایاں حیثیت کا حامل ہے، جہاں خواتین کی شرح خواندگی بھی تقریبا 96 فیصد ہے، قدرتی مناظر اور امن و امان کا گہوارہ اس وقت سازشوں کا شکار ہونے کی وجہ سے خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے، ملک کا سب سے پرامن علاقہ جہاں پر جرائم کی شرح پورے ملک کے مقابلے میں سب سے کم ہے، لیکن وہاں غنڈہ ایکٹ جیسا اسپیشل قانون بنا کر سب کو موجودہ حکومت نے تشویش میں ڈال دیا ہے۔
آج سے تقریبا سو سال پہلے جب ہمارا ملک بھارت انگلینڈ کے تسلط میں تھا، اس وقت فروری 1919 میں بھارت کے لئے انگلینڈ حکومت کی امپیریل قانون ساز کونسل نے روولٹ ایکٹ پاس کیا تھا جس کے تحت ہندوستان میں انگریز حکومت کسی کو بھی شک کی بنیاد پر بغیر کوئی مقدمہ چلائے پولیس کے ذریعے گرفتار کرکے قید میں رکھ سکتی تھی، لیکن آخر کیا وجوہات ہیں جو آزادی حاصل کرنے کے تقریبا 75 برس گزرنے کے بعد لکشدیپ میں ایسے ہی ایک کالے قانون غنڈہ ایکٹ کو نافذ کرنے کی ضرورت آن پڑی ہے۔ آج لکشدیپ میں غنڈہ ایکٹ کے تحت پولیس کسی کو بھی بغیر عدالت میں مقدمہ چلائے، مروجہ فوجداری قوانین اور کرمنل جسٹس سسٹم کو بالائے طاق رکھ کر ایک سال تک قید میں رکھ سکتی ہے، بلا شبہہ یہ قانون جمہوری اصولوں اور انصاف کے قدرتی ضابطوں کے برخلاف ہے۔
اس قانون کے پیچھے کارفرما عوامل پر غور کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے، لکشدیپ مرکزی حکومت کے ماتحت ایک ایسا علاقہ ہے جو 35 جزائر پر محیط ہے جس کی 97 فیصد آبادی مسلم ہے، ان جزائر کے مجموعے کو ہم لکشدیپ جزائر کے نام سے جانتے ہیں، لکشدیپ جزائر کی کل آبادی 2011 کی مردم شماری کے مطابق 64473 تھی، جس کا کل رقبہ تقریبا 13 مربع میل یعنی 32.62 کلومیٹر کا ہے۔ لکشدیپ جزائر کی نہ تو کوئی قانون ساز اسمبلی ہے اور نہ ہی کوئی وزیر اعلی ہوتا ہے، حکومتی ڈھانچہ تین اہم ستون پر منحصر ہوتا ہے، لکشدیپ جزائر کا ایک ممبر آف پارلیمنٹ ہوتا ہے جو وہاں کی عوام الیکشن کے ذریعے منتخب کرکے لکشدیپ کی نمائندگی کے لئے پارلیمنٹ میں بھیجتی ہے، وہاں کی علاقائی گورننس یا حکومتی نظم و نسق کے لئے پنچایتی نظام ہوتا ہے نیز تیسرا اور سب سے اہم انتظامی ذمہ دار صدر جمہوریہ کا نامزد کردہ منتظم (ایڈمنسٹریٹر) ہوتا ہے، اس وقت لکشدیپ جزائر کے ایڈمنسٹریٹر گجرات کے سابق وزیر داخلہ پرفل کھوڑا پٹیل ہیں جن کو سابق ایڈمنسٹریٹر دنیش شرما کے انتقال کے بعد 5 دسمبر 2020 میں صدر جمہوریہ نے نامزد کیا تھا۔ 21 اگست 2010 میں جب سی بی آئی نے گجرات کے وزیرداخلہ امت شاہ کو سہراب الدین قتل کیس میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا تھا تو پرفل کھوڑا پٹیل کو گجرات کے وزیراعلی نریندر مودی نے امت شاہ کی جگہ گجرات کا وزیرداخلہ نامزد کیا تھا۔ 2014 میں جب نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بن گئے تو پرفل پٹیل کو 2014 میں ہی دمن اور دیو جزائر کا ایڈمنسٹریٹر نامزد کردیا گیا، 2016 میں پھر پرفل پٹیل دادر اور نگرحویلی جزائر کے بھی ایڈمنسٹریٹر بنادیے گئے، دسمبر 2019 میں مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے ایک بل پاس کرکے فیصلہ کیا کہ 26 جنوری 2020 سے دمن ، دیو ، دادر اور نگر حویلی کو ایک متحدہ مرکزی ماتحت علاقہ بنایا جائے گا، اس متحدہ مرکزی ماتحت علاقے کا پہلا ایڈمنسٹریٹر پرفل کھوڑا پٹیل کو ہی نامزد کیا گیا۔
آخر وہ کون سے عوامل کارفرما تھے جن کے تحت آرایس ایس سے تعلق رکھنے والے گجرات کے ایک بی جے پی نیتا کو یکے بعد دیگرے متعدد جزائر کا صدر جمہوریہ ایڈمنسٹریٹر نامزد کرتے چلے گئے، اور پرفل پٹیل نے ان جزائر میں ایک خاص نقطہ نظر سے اپنی پالیسیوں کو روبہ عمل لانے کی کوشش کی جن کی وجہ سے ان جزائر میں بدامنی پھیلتی چلی گئی، لکشدیپ میں آج جو بے چینی پائی جارہی ہے اس سے پہلے 2019 میں دمن میں بھی بے چینی کا ماحول بنا تھا جب پرفل پٹیل نے دمن کے ساحلی علاقوں پر واقع مقامی لوگوں کے تقریبا 90 مکانات کو منہدم کرکے ترقیاتی پروجیکٹ کو شروع کرنے کی کوشش کی تھی، عوام کے احتجاجات ہونے پر دفعہ 144 کا نفاذ کرتے ہوئے دو سرکاری اسکولوں کو عارضی جیل میں تبدیل کردیا تھا۔
23 فروری 2021 کو ممبئی کے ایک ہوٹل سے دادر و نگر حویلی جزائر کے ساتویں بار منتخب ممبر آف پارلیمنٹ موہن دولکر کی لاش برآمد ہوئی تھی، خودکشی کے بعد 15 صفحات کا ایک سوسائڈ نوٹ بھی برآمد ہوا تھا جس میں وہاں کے ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل کے ذریعے ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا، یہ الزام لگایا گیا کہ ان کو 25 کروڑ روپے دینے کے لئے مجبور کیا جارہا تھا جس کے نہ دینے پر جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی دھمکی دی جارہی تھی، اصولی طور پر پرفل پٹیل کو مستعفی ہوکر عدالت میں حاضر کرنا چاہیے تھا تاہم موجودہ حکومت نے لکشدیپ کا بھی ایڈمنسٹریٹر نامزد کردیا۔
لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر بننے کے بعد پرفل پٹیل نے وہاں بھی کچھ اہم انتظامی امور میں بڑی تبدیلیاں کیں، سب سے اہم پنچایتی نظام کے اختیارات میں سیندھ لگاتے ہوئے پنچایت کے پانچ اہم شعبوں کے اختیارات چھین لئے جن میں تعلیم، ہیلتھ کیئر، زراعت، پشو پالن اور مچھلی پالن کے شعبہ جات شامل تھے۔ پرفل پٹیل نے لکشدیپ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا شعبہ قائم کیا۔ مجوزہ ضابطہ مرکزی حکومت کے ذریعے نامزد منتظم اور اس کے واسطے سے مرکزی حکومت کو بے دریغ طاقت عطا کرتا ہے۔جس کے تحت لکشدیپ میں موجود زمین کی ملکیت اور اس کے استعمال کے حق کو براہ راست حکومت اور اس کے ادارے کو اپنی ملکیت میں لینے اور اس میں براہ راست مداخلت کرنے کا اختیار مل جاتا ہے۔اس مسودے کی دفعہ 29 حکومت کو ’ترقیاتی‘ سرگرمیوں کے لیے کسی بھی اراضی کو حکومت کی نظر میں موزوں محسوس ہونے پر استعمال کرنے کا اختیار دیتی ہے۔
پرفل پٹیل نے لکشدیپ جزائر میں ایک اسمارٹ سٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پورے ملک میں ایک بھی اسمارٹ سٹی بنانے میں یہ حکومت کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ اس اسمارٹ سٹی اور سیاحت کے فروغ کے لئے لکشدیپ میں شراب کی خریدوفروخت سے پابندی ہٹادی گئی ہے جو کہ لکشدیپ میں ممنوع تھی، یہاں یہ ذکر کرنا اہم ہے کہ پرفل پٹیل گجرات میں شراب پر پابندی کے حق میں اہم آواز ہوا کرتے تھے۔ لکشدیپ میں بیف پر پابندی لگادی گئی ہے، مڈڈے میل سے گوشت کو ہٹادیا گیا ہے، اب لکشدیپ میں گائے کاٹنے یا اس کا گوشت رکھنے پر عمر قید تک کی سزا کے ساتھ ساتھ 5 لاکھ تک کا جرمانہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ تعجب ہے کہ جو حکومت گوا اور نارتھ ایسٹ میں گائے کا گوشت دینے کا وعدہ کرتی ہے، دنیا میں تقریباسب سے زیادہ بیف گوشت کی سپلائی کرتی ہے وہی حکومت لکشدیپ میں پابندی لگاتی ہے۔
لکشدیپ جزائر میں بے چینی کی ایک بڑی وجہ وہاں ایک ایسے قانون کا تعارف ہے جس کے تحت اگر کسی شخص کے دو سے زیادہ بچے ہوں گے تو وہ الیکشن نہیں لڑ سکے گا، جب کہ پورے ملک میں کسی بھی جگہ ایسا کوئی قانون نافذ نہیں ہے، حتی کی حکمراں جماعت بی جے پی کے 303 ممبر آف پارلیمنٹ میں سے 96 ایم پی کے تین یا تین سے زائد بچے ہیں۔
آج لکشدیپ جزائر کو جو کہ اپنی خوبصورت قدرتی مناظر اور امن و امان کے لئے جانا جاتا تھا وہاں پر حکومت باہر سے مخصوص سیاسی و معاشی پالیسی کے تحت ایسے ایڈمنسٹریٹر کو مسلط کررہی ہے جو کہ ان کو انگریز کولونی ہونے کا احساس دلارہے ہیں، ترقیاتی پروجیکٹ کی آڑ میں وہاں پر بڑے بڑے ہوٹل قائم کرنا چاہتے ہیں، وہاں کی زمینوں کو بڑے صنعتی گھرانوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں اور ان عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی عوامی آواز کو دبانے کے لئے غنڈہ ایکٹ جیسے قانون کا نفاذ عمل میں لایا جارہا ہے جو کہ ایک جمہوری ملک کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔