حمیرا خالد
بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ گفتگو کرنا بھی ایک فن ہے۔ گفتگو خواہ دو اشخاص کے درمیان ہو یا کسی مجمع میں، آدابِ فن سے واقف ہونا ضروری ہے۔ ہر وہ شے جو اللہ نے ہمیں عطا کی ہے، وہ قوتِ بیان ہو یا قوتِ کلام… اللہ کی کتاب سے اس بارے میں واضح تعلیم ملتی ہے۔ لہٰذا گفتگو کے اسلامی آداب کے چند اصول و ضوابط ہیں:
مخاطب کی خوبیوں کی تعریف کرنا:
مخاطب ضرور متکلم کی باتوں کو خوشی سے سنتا ہے اور ان پر غور بھی کرتا ہے، اگر اس میں حوصلہ افزائی کا پہلو نمایاں ہو تو اعتماد پیدا ہوتا ہے۔
نام لے کر مخاطب کو پکارنا:
’’اے موسیٰ! میں ہی تیرا رب ہوں، اے موسیٰ! یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘ (القرآن) لوگوں کے نام یاد رکھنے سے تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے، محبت اور چاہت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
نرم انداز میں گفتگو:
’’فرعون کے پاس جاکے وہ سرکش ہوگیا ہے، اس سے نرمی سے بات کرنا، شاید کہ وہ نعمت قبول کرلے یا ڈر جائے۔‘‘ (القرآن) مخاطب سے نرمی سے بات کرنے سے دھیرے دھیرے متکلم کے لیے اعتماد پیدا ہوتا ہے، اختلاف دور ہوتا ہے اور متکلم کی باتوں پر غور کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
لاعلمی یا ناواقف باتوں پر پوچھ لینا:
’’اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم خود نہیں جانتے۔‘‘ (سورہ النحل)
اور لاعلمی کا اعتراف کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی جائے، یہ بہترہے اس بات سے کہ غیر مستند بات آگے بڑھ جائے۔
کثرت سے سوال کرنے سے پرہیز کرنا:
غیر ضروری سوالات سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیے اور بہت زیادہ چھان بین کرنے سے بات کے الجھنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ سورۃ البقرہ میں گائے کے لیے کیے جانے والے سوالات نے انہیں مشکل میں ڈال دیا۔ سورۃ الکہف میں غار والوں کی تعداد کے بارے میں جاننے کی خواہش نے اصل مقصد سے دور کردیا۔ (القرآن)
مخاطب کی معلومات سے متعلق سوال کرنا:
علما جس قسم کے آدمی سے ملتے تھے اُس کی دلچسپی اور معلومات پر سوال کیا کرتے تھے۔ علمی استعداد کو دیکھتے ہوئے بات کی جائے تو مخاطب دل چسپی سے اپنے متعلقہ موضوع پر بات کرنا پسند کرتا ہے۔
اپنی بات متعلقہ فرد کو ہی سنائی جائے:
’’حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا: اباجان میں نے خواب دیکھا ہے۔ والد نے کہا: اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تمہارے درپئے آزار ہوجائیں گے‘‘ (القرآن)۔ جو بات جس کو سنانا ضروری ہو صرف اسی کو سنانا چاہیے۔ حضرت حذیفہؓ رازدارِ رسولؐ تھے۔ حضرت عمرؓ کو بھی نہیں بتایا اور وہ راز سینے میں لے کر ہی دنیا سے رخصت ہوئے۔
بے خوف گفتگو:
پورے اعتماد اور بے خوفی کے ساتھ بات کی جائے۔ عمر اور مرتبے کا لحاظ رکھنا چاہیے، لیکن مرعوب یا خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔
گفتگو میں احساسِ برتری کا نہ ہونا:
احساسِ برتری کے لیے جو لفظ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے وہ ’’میں‘‘ ہے۔ ’’میں نے ڈھیروں اڑا دیا۔‘‘ (القرآن)
فرعون نے کہا ’’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔‘‘ (القرآن)
شیطان کا جملہ ہے ’’کیا میں اس کو سجدہ کروں جو مٹی سے بنایا گیا ہ!‘‘ (القرآن)
برتری حاصل کی نہیں جاتی، یہ انہیں مفت ملتی ہے جو اس کے اہل ہوں۔
گفتگو میں احساسِ کمتری کا ہونا:
احساسِ کمتری والا دوسروں سے حسد کرتا ہے، اسے اپنی خوبیوں اور نعمتوں کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ مرعوبیت کی ذہنیت اس میں احساسِ کمتری پیدا کردیتی ہے۔
جوشیلے کلمات کا استعمال:
کبھی لوگ شرارت یا فساد کے لیے ایسے جملے بولتے ہیں جن سے دوسرا طیش میں آجائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوتِ اسلام پر فرعون نے سوال کیا ’’اور پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں ان کی کیا حالت تھی؟‘‘ مطلب یہ کہ کیا ہمارے باپ دادا گمراہ تھے؟ کیا وہ سب احمق تھے؟ اس نے تعصب کی چنگاری ڈالی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ’’اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے، میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے۔‘‘
ملکہ سبا کی جوشیلی تقریر ’’ہم طاقت ور ہیں، سخت جنگجو ہیں، بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ کردیتے ہیں، عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ (سورۃ النحل)
زبانِ حال کا اظہار بغیر لفظوں کے کرنا:
آدمی اپنی حالت بیان نہ کرے، چہرہ اس کی کیفیت بیان کردے۔ حسبِ موقع اِن شاء اللہ کہنا اور پیشانی پر سلوٹیں نہ ڈالنا آدابِ گفتگو میں شامل ہے۔
’’یہ بھی نیکی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو۔‘‘ (سورہ عبس)
گفتگو کے اثرات دیرپا اور انمٹ ہوتے ہیں، اس لیے گفتگو کرنا بہت حساسیت رکھتا ہے، اور الفاظ دنیا سے جانے کے بعد بھی وزن رکھتے ہیں۔ صالحین کا قول ہے کہ ’’خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے مرنے کے بعد اس کے گناہ بھی مر جائیں، اور بدنصیب ہے وہ شخص جس کے گناہ اس کے مرنے کے بعد بھی باقی رہیں۔‘‘ (الحدیث)