عبد السلام عاصم
’’قانونی تحفظ‘‘ کی حیثیت ایک دستاویز کی ہے اور’’سماجی تحفظ‘‘ سے محروم معاشرے میں ایسی کسی دستاویز کی عملاً کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔یہ ایک غیر معلنہ منظر نامہ ہے جسے کوئی اور نہیں ہم خود تیار کرتے ہیں او ر ہمیں کو اِس سے فی زمانہ شکایت بھی رہتی ہے۔گویا ہم بھی یہ مانتے ہیں کہ فی الواقعی’’ عوام‘‘اور ’’خواص‘‘دونوں کو سماجی تحفظ چاہئے۔ بصورت دیگر کسی کی زندگی کسی بھی وقت خطرے میں پڑ سکتی ہے، خواہ وہ لاہور میں ٹک ٹاک والی لڑکی ہو یا مفرور صدر افغانستان اشرف غنی۔دونوں کو صرف قانونی تحفظ حاصل تھا ، سماجی نہیں۔
آئیے سوچیں ہمارے اور بعض ہمسایہ معاشرے میں ایسا کیوں ہے۔بظاہر اس کی وجہ علمی، تہذیبی اور اقتصادی خوش حالی کی کمی نظر آتی ہے جو بہ باطن سرے سے غلط نہیںلیکن انہی وجوہ کے درمیان اِس خرابی میںاُس ذہنی فتور کا زبردست عمل دخل ہے جو تغیر پذیر دنیا میں آج بھی دائمی اقدار کا تصورکی بات کرتا ہے۔یہ تصور ہم میں سے بہتوں کو یہ سمجھنے کی توفیق نہیں دیتا کہ معاشرتی، اقتصادی اور اخلاقی اقدار کسی بھی معاشرے، ملک اور وہاں کے سیاسی نظام کی پیداوارہوتی ہیں اورلوگ بہ کثرت ذہنی طور پراُن اقدار سے بندھے ہوتے ہیں۔
یہ مان کر چلنا کہ اقدار دائمی ہوتی ہیں اور ان پر ہی عمل ضروری ہے کسی بھی معاشرے کے ارتقائی عمل کو روک دیتا ہے۔ایسے جامداور غیر ترقی یافتہ معاشرے میں سماجی تحفظ کا سارا ذکر صرف آسمانی اور قانونی کتابوں میں ملتا ہے اور جس قانونی تحفظ کا ذکر کتابوں میں ہونا چاہئے وہ کسی بھی سانحے کے بعدہر کسی کی زبان پر چلا آتاہے۔ اصل میں معاشرہ اصلاحات کے رخ پر زبانی جمع خرچ سے نہیں بدلتا۔ نہ ہی ایک سے زیادہ قانون سازی اس میں ایسی کوئی تبدیلی لا سکتی ہے کہ پھر کسی کو کسی سے کوئی گلہ نہ رہے۔ اگر معاشرہ قانون سازی سے بدلتا توترقی پذیر اور نیم ترقی پذیر معاشرے میں حق تلفیاں اس قدر عام نہیں ہوتیںاور طبقاتی ڈھانچہ اس قدر خستہ نہیں ہوتا۔
قتل، آبرو ریزی، چوری، ڈکیتی، اغوا ، ظلم و زیادتی ، دہشت گردی اور ماب لنچنگ کی وارداتیں دُنیا میں کہیں بھی خواہ فی گھنٹہ کے حساب سے ہوں، یومیہ ہوں، فی ہفتہ یا فی مہینہ: ایسی وارداتیں ایک بدترین معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں۔ ایسے معاشروں میں مبلغین و ذاکرین مختلف اجلاسوں میں سماجی خرابیوں کے خلاف کتنی ہی گلا پھاڑ تقریریں کیوں نہ کرتے پھریں،وہ ہمیشہ یہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ معاشرتی بگاڑ اُن دائمی اقدار سے دوری کا نتیجہ ہے جن کے احیاء سے ہی ہم ایک بار پھر ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔ایسے مقررین سامعین اور ناظرین پر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا اور یہ سب موجودہ زمانے کی روش کا نتیجہ ہے۔اس طرح سننے اور دیکھنے والے پلک جھپکتے اُس ماضی میں کھو جاتے ہیں جو شاید پہلے بھی قصے کہانیوں سے زیادہ کہیں کوئی وجود نہیں رکھتا تھا۔
بر صغیر میں سماجی عدم تحفظ کے واقعات گنوائی جائیں تو صفحات کے صفحات سیاہ کرنے کے با وجود بیشتر عصری وارداتوں کا احاطہ نہیں کیا جا سکے گا۔ اخبارات کی سُر خیاں تقریباً روزانہ خون میں ڈوبی نظر آتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے عہد میں ایک طرف جہاں ہر ظلم اور ہر زیادتی اگلے ہی لمحے بے نقاب ہو جاتی ہے وہیں اس انقلاب نے ایک ایسی بد نظمی بھی پھیلا رکھی ہے جس پر مقتدرین چاہتے ہوئے بھی قابو پانے سے قاصر ہیں۔
ہمارے یہاں سیکولرزم اوردھرم کے بے جا استحصال کی دوڑ آٹھویںدہائی میں ہے۔حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔عوام کی بیداری دونوں کو کسی طورمطلوب نہیں۔محدود مفادات کے حامل سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماوں کیلئے یہ حالات اُن کے اپنے کاروبار کے لئے انتہائی ساز گار ہوتے ہیں۔ یہ رہنما دونوں طرف پائے جاتے ہیں ۔ اِن کا کام سیاسی آقاوں کی ہدایت کے مطابق جوش و جذبے کا کاروبار میں تیزی اور مندی لانا ہوتا ہے۔یہ اپنے مخالفین کے تعلق سے عوام کو کسی غیر موجود سازش کی بو سونگھنے پر بھی اس قدر مجبور کرتے ہیں کہ نفسیاتی طور پر وہ بو پھیل ہی جاتی ہے۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایک طرف جہاںپارلیمنٹ کی کارروائی منافقانہ امداد باہمی سے چلنے نہیں دی گئی وہیں دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن دونوں نے عوام کی نظروں میں ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار بنا کر پیش کر دیا۔ سوچنے والوں نے جہاں سر پیٹ لیا وہیں دونوں طرف ماننے اور منوانے والوں نے اپنی اپنی پیٹھیں خود ٹھونک لیں۔
موجودہ منظرنامے کو بدلنے کیلئے پھر کسی دیوانے کا خواب دیکھنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ آمریت کے خلاف سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں نے دکھایا تھا۔ یمینی اور یساری دونوں عقائدنظام فطرت سے بُری طرح متصادم ہیں ۔ فطرت کا نظام کسی جامد اصول پر نہیں چل سکتا۔ اسے رسی پر توازن کے ساتھ چلنے کا وہ انداز ہی راس آتا ہے جو علم اور ہنر دونوں سے آراستہ ہو۔جمہوریت اسی راستے کا نام ہے جس پر چلنے والے کے توازن کھوتے ہی سب کچھ بکھر کر رہ جاتا ہے۔اور پھر ایک مرحلے میں وہ بھی بلیم گیم کا حصہ بن جاتا ہے۔
اس منظر نامے کوبدلنے کیلئے ہمیں اِس تفہیم سے انتہائی ایمانداری سے گزرنا ہو گا کہ جمہوریت میں جہاںمتعین آداب کے ساتھ سوچنے، سمجھنے اور اظہار کی آزادی ہوتی ہے وہیںآمریت میں سننے، ماننے اور اظہار کے نام پر ہاں میں ہاں ملانے تک محدود رہنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ دونوںپر جب تک بالترتیب تفہیم پسندانہ اور مقلدانہ عمل جاری رہتا ہے، اُس وقت تک ماحول پُر امن رہتا ہے۔ ایسے میں اچھی یا بُری کوئی بھی تبدیلی اُس وقت آتی ہے جب جمہوری ماحول کو بگاڑنے والے عناصرکو جمہوری اداروں میں محفوظ پناہ گاہیں ملنا شروع ہو جاتی ہیں یا آمریت کے خلاف فطری بیزاری کا جذبہ سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دینے کے عہد کی دہلیز پار کر لیتاہے۔
یہ تاریخِ انسانی کا ایک ایسا باب ہے جس کا بے باک، بے لاگ اور بے خوف مطالعہ ہی کسی محقق کواپنے فرض کی ادائیگی میں ایماندار رکھ سکتا ہے۔بصورت دیگر وہ اپنے کسی بھی نظریاتی/فکری/تہذیبی یاانسلاکی دباو کے نتیجے میں از خودایک ایسے سمجھوتے کی طرف بڑھنے لگتا ہے جدھر آدابِ معاشرت کے مسلط کردہ پہلوں کو سمجھنا اور کسی اعلان کے بغیر اس سے احتراز کرنے کی درکارصلاحیت اُس کے اندر معدوم ہونے لگتی ہے۔ اس طرح ایک دن وہ اس قدر کندیشنڈ ہو چکا ہوتا ہے کہ اُسے اپنی ہر پسند ’’حق‘‘ نظر آنے لگتی ہے اوروہ ہر اُس سچ کو باطل سمجھنے لگتا ہے جس سے اُس کے اخذ کردہ نتائج میل نہیں کھاتے۔
دنیا میں روز ازل سے ماننے اور جاننے کے دو الگ الگ سلسلے جاری ہیں۔ماننے والے عقائد کی سوچ کے ساتھ جیتے اور مرتے ہیں اور جاننے والے کسی جامد خیال پر متحرک اختلاف رائے کو ترجیح دیتے ہیں۔باوجودیکہ علمی ماہرین غیر سائنسی عقائدکی نجی حیثیت پر اعتراض نہیں کرتے۔وہ استدلال کے بجائے تفہیم کی بنیاد پر یہ بھی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ عقائد اور اَن دیکھا یقین اپنے آپ میں اُس وقت تک غلط نہیں جب تک اُس میں کسی روایتی ’’پسند‘‘ اور ’’ناپسند‘‘ کو بالترتیب ’’حق‘‘ و ’’باطل‘‘ کا درجہ نہیں دے دیا جاتا۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ کسی کی موت کے صدمے پر قابو پانے کی کوشش میں راضی بہ رضا رہنے کا عقیدہ آج بھی موثرہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ کسی کی بیمار ذہنیت کو دعاوں سے نہیں بدلا جا سکتا۔ اس کاصرف سائنسی علاج ممکن ہے۔ اِن دونوں باتوں کو سمجھنے کے لئے لازمی ہے کہ نظریاتی سوچ اور حقیقی تعلیم کو ہرگز ہم پلہ قرا ر نہ دیا جائے کیونکہ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)