تحریر: پرتاپ بھانو مہتا
کشمیر میں اقلیتوں کے خلاف ہورہے تشدد خطرناک ضرور ہے لیکن غیر متوقع نہیں ۔ ہدف کرکے یہ قتل ہورہے ہیں ۔ سکھوں اور ہندوؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ بھلے ہی یہ بھارت سرکار کی جانب سے طویل عرصہ سے کشمیر میں کی جاتی رہے تشدد کا نتیجہ ہے، لیکن اس سے ان واقعات کے تئیں نرم نہیں ہو ا جاسکتا۔ اس تشدد کا واضح مقصد دہشت پھیلانا اور پورے بھارت میں فرقہ وارانہ انتشار کو ہوا دینا ہے ۔
سیاسی جماعتوں کی شمولیت کے بغیر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ دہشت گردوں کے چھوٹے گروپ کے لیے آسان شکار تلاش کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ 90 کی دہائی میں بھی ایسا ہی ہوا جب کشمیری پنڈتوں پر حملے ہوئے تھے۔ ایک بار پھر حکومت کے لیے کشمیر میں اقلیتوں کے لیے سیکورٹی کا انتظام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ بی جے پی حکومت ایک بار پھر جگموہن والے دورمیں پہنچ گئی نظر آرہی ہے ۔
ان دہشت گردانہ حملوں کا مقصد حکومت کو ردعمل پر مجبور کرنا ہے اور اس طرح ’چٹ بھی میری ، پٹ بھی میری‘ کی صورتحال پیدا کرنا ہے۔ دہشت گرد حملوں میں پاکستانی ہاتھ ہونے کی واضح سمجھ کےباوجود یہ سرکار پر منحصر ہے کہ اسے سرجیکل اسٹرائک کا راستہ اختیار کرنا ہے یا نہیں، جو دہشت گردی کے مسئلے کا حل قطی نہیں ہے ۔ دہشت گردانہ حملوں سے بھارت میں فرقہ واریت کی سیاست تیز ہوگی ۔سوشل میڈیا اس موضوع پر زیادہ سرگرم ہے۔ کشمیر کو ایک پردیش کے طور پر تسلیم اب تک نہیں کیا گیا ہے ۔ یہاں معمول زندگی بھی پٹری پر لوٹ نہیں سکی ہے ۔ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک کی سیاست غیر مستحکم ہے ، ہر طرف عدم تحفظ اور انسانی حساسیت نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)