افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے 11 اکتوبر کو دارالعلوم دیوبند کا دورہ کیا تھا جس کے بعد اس پر مختلف زاویوں سے تبصرے اور ردعمل سامنے آرہے ہیں ۔
ہندوستان کے نامور نغمہ نگار اور شاعر جاوید اختر نے 13 اکتوبر کو متقی کے دورے کے بارے میں لکھا، "جب میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کی سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم طالبان کے نمائندے کو ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف تبلیغ کرنے والے لوگوں کی طرف سے عزت اور پذیرائی مل رہی ہے، تو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ میرے ہندوستانی بھائیو اور بہنو، ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟”
دارالعلوم دیوبند کے پرنسپل (صدر المدرسین )مولانا ارشد مدنی سے پوچھا گیا کہ آپ جاوید اختر کے اس تبصرے کو کیسے دیکھتے ہیں؟مولانا مدنی نے بی بی سی ہندی کو بتایا، "میں نے لوگوں سے جاوید اختر کے تبصرے سنے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ طالبان لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روک رہے ہیں، لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ طالبان صرف یہ کہتے ہیں کہ لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ نہیں پڑھیں گے۔ ہم اس کے بھی خلاف ہیں۔ ہندوستان میں بہت سے ایسے تعلیمی ادارے ہیں جہاں صرف لڑکیاں ہی پڑھتی ہیں۔”
ایک حلقہ طالبان کو دہشت گرد مانتا ہے مگر مولانا اس سوچ سے اختلاف رکھتے ہیں بی بی سی ہندی کے مطابق ان کا خیال ہے کہ طالبان نے ایک انقلاب برپا کیا ہے، اور لوگ اسے دہشت گردی سمجھ رہے ہیں۔ مولانا مدنی کہتے ہیں، "میں مانتا ہوں کہ ان کے باپ دادا نے انہیں دنیا کی بڑی طاقتوں سے لڑنے کا جو جذبہ سکھایا وہ آج بھی موجود ہے۔ طالبان نے مغرب کو شکست دی ہے، اس لیے وہ دہشت گرد کہلاتے ہیں، اگر وہ دہشت گرد ہوتے تو ہندوستان انہیں کیوں بلاتا ؟ یہ سیاست ہے، اس لیے انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ میں انہیں بالکل دہشت گرد نہیں مانتا۔”—–انہوں نے امریکہ اور روس جیسی طاقتوں کو شکست دی ہے۔ وہ (متقی ) ہمیں ماننے والے ہیں ہیں، اس لیے ہمارے لوگ نکل آئے۔ بھارت نے طالبان سے تعلقات قائم کر کے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نامزد دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہیں اور انہیں ہندوستان کے دورے کے لیے سلامتی کونسل کی اجازت درکار ہے۔ یو این ایس سی نے متقی کو 9 اکتوبر سے 16 اکتوبر تک ہندوستان کے دورے کی اجازت دی تھی۔








