مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
ہندوستان میں مدرسہ ایجوکیشن سسٹم بہت مقبول ہے۔مسلم سماج کا ایک بڑا طبقہ مدارس سے منسلک ہے۔ان کے بچے؍بچیاں مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔اور مدارس میں تعلیم دلانا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں مدارس کا جال بجھا ہواہے۔ ان میں تعلیم حاصل کرنے والے اور فارغین کی تعداد بھی بہت ہے۔جب ہم ملک ہندوستان کاجائزہ لیتے ہیں تو دو طرح کے مدارس سامنے آتے ہیں۔
(۱)مدارس نظامیہ
(۲)مدارس ملحقہ
(۱) مدارس نظامیہ ایسے مدارس ہیں جن میں درس نظامی کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ حکومت سے امداد نہیں لیتے ہیں۔یہ آزاد مدارس ہیں ۔ان کا نصاب تعلیم درس نظای کے مطابق ہے۔اس میں صرف دینی تعلیم کا انتظام ہے۔ان میں سے کچھ مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا بھی انتظام ہے۔اکثر مدارس میں عصری مضامین کی تعلیم کے لئے انتظام نہیں ہے۔ ان مدارس کا نصاب تعلیم حکومت سے منظور نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کی سرٹیفکیٹ ؍ڈگڑی کو حکومت سے ملازمت اور عصری تعلیم اداروں میں داخلہ کیلئے منظوری حاصل نہیں ہے۔ویسے ان مدارس کے طلبہ اچھی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ان مدارس کے اسناد کو حکومت کے ذریعہ منظور نہ ہونے کی وجہ سے ان مدارس سے طلبہ و فارغین کسی مقابلہ جاتی امتحان میں شریک ہونے کے اہل نہیں ہیں۔
(۲)مدارس ملحقہ وہ مدارس ہیں جو کسی سرکاری بورڈ سے منظور و ملحق ہیں۔ان میں حکومت کے ذریعہ منظور نصاب تعلیم کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے۔ان میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری مضامین کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔جیسے بہار مدرسہ بورڈ،اڑیسہ مدرسہ بورڈ،بنگال مدرسہ بورڈ ،الہ آباد بورڈ،بھوپال بورڈوغیرہ۔ان کی سند کو حکومت کے ذریعہ منظوری حاصل ہے۔اس کی وجہ سے ان مدارس کے فارغین طلبہ ؍طالبات مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت کرسکتے ہیں۔ لیکن نہایت ہی افسوس کی بات ہے کہ ان میں تعلیم کا معیار بہت ہی کمزور ہے۔جس کی وجہ سے بورڈ کے مدارس کے فارغین اپنی سند پر مقابلہ جاتی امتحانات میں حصہ نہیں لے پاتے ہیں۔
مذکورہ بالا دونوں مدارس کے فارغین ہمارے سامنے ہیں۔نظامیہ مدارس کے فارغین صاحب صلاحیت ہوتے ہیں۔اگر ان کی تربیت کی جائے اور کوچنگ وغیرہ کے ذریعہ عصری مضامین کی تعلیم کو مضبوط کر دیا جائے تو مقابلہ جاتی امتحانات کو نکال لیں گے۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان کی سند و ڈگری ہی اس قابل نہیں کہ یہ کسی مقابلہ جاتی امتحان میں حصہ لے سکیں۔جب کہ بورڈ سے ملحق مدارس کی سند اس قابل ہے کہ وہ مقابلہ جاتی امتحانات میں حصہ لے سکیںلیکن یہ اس مقام پر پیچھے رہ جاتے ہیںکہ ان کے اندرپختہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے کہ یہ مقابلہ جاتی امتحان کو نکال سکیں ۔اس سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ نظامیہ مدارس کے فارغین کی سند پر اور بورڈ سے ملحق مدارس کے فارغین کی صلاحیت پر بحث و گفتگو کی ضرورت ہے۔
مدارس نظامیہ کی سند کو مساوات کا درجہ حاصل نہیں ہے۔اس لئے ان مدارس کے فارغین مقابلہ جاتی امتحانات میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہیں۔لیکن یہاں اس حقیقت کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ مدارس نظامیہ کے اکثر فارغین کسی بورڈ سے امتحانات میں شریک ہو کر سرٹیفیکیٹ وسند حاصل کر چکے ہیں۔یا پھر وہ کسی یونیورسیٹی میں تعلیم حاصل کرکے ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔ اس طرح مدارس نظامیہ کے اکثر فارغین مقابلہ جاتی امتحانات میں حصہ لینے کے اہل ہیں۔چونکہ بورڈ کی سند کو مساوات کا درجہ حاصل ہے۔بقیہ ایسے فارغین جنہوں نے بورڈ سے امتحانات پا س نہیں کئے ہیں،وہ بھی کسی بورڈ یا نیشنل اوپین اسکول ایجوکیشن سسٹم سے امتحانات دے کر سند حاصل کر سکتے ہیں۔اس کے لئے چند سال مزید درکار ہوں گے۔اسناد کی Equivalency(مساوات) اور معادلہ پراہل مدارس کوغو ر خوض کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
مدارس ملحقہ کے فارغین کی سرٹیفیکیٹ کو مساوات کا درجہ حاصل ہے۔اس لئے وہ کسی بھی مقابلہ جاتی امتحانات میں حصہ لے سکتے ہیں۔البتہ اس کے لئے انہیں تعلیم میں پختگی کی ضرورت ہے ،تو دقت مدارس نظامیہ کے فارغین کے لئے بھی ہے اور مدارس ملحقہ کے فارغین کے لئے بھی ۔
مقابلہ جاتی امتحانات سخت ہوتے ہیں ۔ان کے مضامین مدارس کے مضامین سے الگ اور بہت وسیع ہوتے ہیں۔ مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیاب ہونے کیلئے کالج و یونیورسیٹی کے فارغین کو بھی ۱۸ گھنٹہ پڑھنا پڑتا ہے۔تب وہ اس طرح کے امتحانات میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔چونکہ اس طرح کے امتحانات میں لاکھوں طلبہ شریک ہوتے ہیں اور ان میں کامیاب ہونا پڑتا ہے ۔ اس لئے مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیابی کے لئے طلبہ کو سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔اس سے یہ سمجھ لینا غلط ہے کہ مدارس کے فارغین اس امتحان کو نہیں نکال سکیں گے۔مجھے تو مدارس کے فارغین کی محنت کا پورا اندازہ ہے ،اس لئے توقع ہے کہ مدارس کے فارغین مقابلہ جاتی امتحانات میں حصہ لیں گے تو زیادہ اچھا کر دکھائیں گے۔
مقابلہ جاتی امتحانات میں B.P.S.C(بہار پبلک سروس کمیشن)کا نصاب تعلیم میرے سامنے ہے۔ اس امتحان میں کامیابی کے بعد صوبہ بہار میںExcise Inspector,S.D.O,D.S.P, District Education office, Officer،Registrarوغیرہ درجہ کے آفیسر بنتے ہیں۔B.P.S.Cکے امتحانات دو مرحلہ میں ہوتے ہیں۔ایک P.T(پرائمری ٹسٹ) اور دوسراMains (فائنل امتحان) کہلاتا ہے۔
P.T(پرائمری ٹسٹ)میں صرف ایک پرچہ ہوتا ہے ۔اس میں دو طرح کے مضامین ہوتے ہیں ۔ایک G.K(جنرل نالج)جبکہ دوسرا G.S (جنرل اسٹڈیز) ہے۔ دونوں ملا کر 150سوالات ہوتے ہیں۔یہ سوالات Objective(معروضی) ہوتے ہیں اور 150نمبرات کے ہوتے ہیں،یہ امتحان دو گھنٹہ کا ہوتا ہے۔یہ امتحان سب کے لئے لازمی ہے۔جو اس امتحان میں پاس ہوگا وہی Mains (فائنل) امتحان میں شریک ہونے کا اہل ہوگا۔ P.T میں تاریخ،جغرافیہ،جنرل نالج ،حساب ،سائنس وغیرہ مضامین کے سوالات پوچھے جا تے ہیں۔
Mains (فائنل امتحان) میں کل6 پرچے ہوتے ہیں ۔ جو1200 نمبرات پر مشتمل ہوتے ہیں۔
(الف)لازمی پرچہ (Compulsory Paper)۔۔۔دو پرچے (2 papers)۔۔۔G.S(جنرل اسٹڈیز)سے
(۱)G.S(جنرل اسٹڈیز) 1 …200نمبرات
(۲) G.S(جنرل اسٹڈیز)200 -2نمبرات
ان میں تمام سبجیکٹ مثلا تاریخ،جغرافیہ،حساب،سائنس ،سوشل سائنس وغیرہ سے مشترکہ طور پہ سوالات پوچھے جاتے ہیں۔
(ب) اختیای پرچہ…… (Optional Paper)….. دوپرچے …… لنگویج و لٹریچر سے
(۱) اختیاری1 …..200نمبرات(۲) اختیاری2…… 200نمبرات
مدارس کے فارغین اردو،فارسی،عربی میں سے کوئی ایک زبان لے سکتے ہیں۔
(ج)اختیاری مضمون ۔۔۔(Optional Paper) ۔۔۔۔۔دو پرچے۔۔۔تاریخ،جغرافیہ،معاشیات،اقتصادیات وغیرہ میں سے کسی ایک سے ۔
(۱)اختیاری1۔۔۔ 200 نمبرات
(۲) اختیاری 2۔۔۔200 نمبرات
اس طرح کل6 پرچے ہوئے۔اور ہر ایک 200 نمبرات کے ، اس طرح مجموعی نمبرات 1200 ہوئے۔ یہ ایک نمونہ ہے ۔اسی سے ملتا جلتا امتحان ہر صوبہ میں ہوتا ہے۔
مقابلہ جاتی امتحان (Union Public Service Commission) U.P.S.C کا خاکہ حسب ذیل ہے۔
یہ مقابلہ جاتی امتحان دومرحلہ میں لیا جاتا ہے۔پہلا P.T(پرائمری ٹسٹ )اور دوسرا Mains (فائنل امتحان) ۔
P.Tمیں دو پرچے ہوتے ہیں۔ایک پرچہ جنرل اسٹڈیز دو گھنٹہ اور 200 نمبر کا، اس میں معروضی (Objective) سوالات اور Negative Marking ہوتا ہے۔جنرل اسٹڈیز میں مشترکہ سوالات معاشیات، سماجیات، تاریخ، جغرافیہ، سائنس، حساب وغیرہ سے پوچھے جاتے ہیں۔اس میںہر سبجیکٹ کے سوالات ہوتے ہیں۔
دوسرا پر چہ COmmon Attitudeکا ہے۔یہ بھی دو گھنٹہ اور200نمبرکا ہوتا ہے۔اس میں Comprehensive Passageسے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔یعنی کئی صفحات پر مشتمل ایک عبارت دے دی جاتی ہے اور اسی عبارت کی بنیاد پر نیچے سوالات دئے جاتے ہیں جس کو پڑھ کر نیچے کے سوالات کے جوابات دینے ہوتے ہیں۔
P.T(پرائمری ٹسٹ ) میں کامیاب ہونے کے بعد ہی کوئی امید وار Mains(فائنل امتحان ) میں شرکت کر سکتا ہے۔Mains(فائنل امتحان ):۔
اس میں مندرجہ ذیل سوالات پوچھے جاتے ہیں۔
(A) پرچہ 1۔۔۔ دستور ہند کی ۸ ویں شیڈول میں سے کسی ایک ہندوستانی
زبان سے متعلق سوالات 300نمبرات
(B) پرچہ2 ۔۔۔ انگریزی ۔۔۔300نمبرات
(C) پرچہ 3 ۔۔۔ مضمون نگاری۔۔۔200 نمبرات
(D) پرچہ 4&5۔۔۔مطالعہ سماج ۔۔۔اس میں دو پرچے ہر ایک 300+300نمبرات کے ہوتے ہیں ۔
(E)اختیاری (Optional) 1&2
Optional 1:۔ پرچہ 6&7۔۔۔ہر ایک کے دو دو حصے ہوتے ہیں اورہر ایک 300+300 نمبرات کے ہوتے ہیں۔
Optional 2:۔ پرچہ 8&9۔۔۔ہر ایک کے دو دو حصے اور ہر ایک 300+300نمبرات کے ہوتے ہیں۔ یعنی Optional Paperکل 1200نمبرات کے ہوتے ہیں۔
یہ Histoy,Geography,Political Science وغیرہ کے سوالات پر مشتمل ہوتے ہیں۔
Mains امتحان میں پاس کرنے کے بعد Vivaہوتا ہے جس کے 300نمبرات ہوتے ہیں
مذکورہ بالا دونوں مقابلہ جاتی امتحانات میں اردو زبان میں بھی پرچہ لکھنے کی اجازت ہے۔
مقابلہ جاتی امتحانات پاس کرنے کے لئے سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ساتھ ہی امتحان کو پاس کرنے کیلئے تجربہ کا راستاد سے مدد لینے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔مقابلہ جاتی امتحانات کو پاس کرنے کیلئے ہر بڑے شہر میں کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کھلے ہوئے ہیں جس میں داخلہ لیکر طلبہ ماہر اساتذہ کی نگرانی میں امتحان کی تیاری کرتے ہیں۔مقابلہ جاتی امتحان بی۔پی۔ایس۔سی،یو۔پی۔ایس۔سی میںP.Tکا پاس کرنا ضروری ہے۔اس کے بعد ہی امیدوارMains امتحان میں شریک ہوسکتا ہے۔پھرMainsامتحان پاس کرنے کے بعدvivaہوتا ہے۔ اس طرح دو تحریری امتحان اور viva پاس کرنے کے بعد ہی امید وار منتخب قرار دیا جاتا ہے۔
مدارس کے فارغین کو مقابلہ جاتی امتحانات کے لائق بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔لیکن یہ کام صرف کہنے سے پورا نہیں ہوگا،بلکہ اس اہم کام کے لئے ملی تنظیموں کو آگے آنا ہوگا۔ چونکہ مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے تیاری ایک نہایت اہم مسئلہ ہے۔اس کیلئے باضابچہ کوچنگ اور امید وار کی تربیت کی ضرورت ہے۔ مدارس کے فارغین عام طور پر غریب فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ا س لئے جب تک انہیں سہولت فراہم نہیں کرائی جائے گی ،وہ مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیاب ہونے کے لائق نہیں بن سکیں گے۔ اس لئے سہولت کے مسئلے پر بھی بحث ضروری ہے۔
امیدواروں کی تربیت کے سلسلے میں تین اداروں کا تجربہ میرے سامنے ہے۔امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کی جانب سے افتا ء اور قضا میں طلبہ کی تربیت کی جاتی ہے۔مرکز المعارف کی جانب سے فارغین مدارس کی تربیت کا انتظام ہے۔اس ادارہ میں انگریزی بول چال کے ساتھ دیگر زبانوں میں بھی تقریر و تحریر کے لئے طلبہ کی تربیت کی جاتی ہے۔اسی طرح رحمانی 30نمونہ کے طور پر موجود ہے۔اس ادارہ میں IITکے لئے طلبہ کو تیار کیا جاتاہے۔ ساتھ ہی ریلوے کیلئے بھی کوچنگ کرائی جاتی ہے۔ان اداروں میں داخلہ ٹسٹ لیکر طلبہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔طلبہ کا انتخاب اور ان کے قیام و طعام کا انتظام کیا جاتا ہے۔ان کی تعلیم کے لئے ماہر اساتذہ کی خدمت حاصل کی جاتی ہے ۔اس طرح طلبہ کی تعلیم و تربیت اور ان کی نگرانی پوری طرح کی جاتی ہے۔اس کا نتیجہ سامنے ہے۔یہ تینوں ادارے کامیابی کے ساتھ خدمت انجام دے رہے۔مدارس کے فارغین کو مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیاب بنانے کے لئے اسی انداز پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔کوئی تنظیم اس کے لئے تیار ہوں تو تجربہ کے طور پر ملک کے ایک دو صوبہ میں مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کے لئے کوچنگ کاانتظام کرے اور مدارس کے فارغین کو مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیابی کے لئے کوشش کی جائے۔مجھے پوری امید ہے کہ مدارس کے فارغین دیگر شعبہ میں بھی اپنی کامیابی کا جوہر دکھا کر ملک و ملت کی صحیح اور پر خلوص خدمت کریں گے اور مدارس کے نام ووقار کو بلند کریں گے۔
(کتاب: مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کا ایک باب……….)