دہلی کے تال کٹورہ اسٹیڈیم میں تحفظ اوقاف کانفرنس کے لیے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے بیماری کی وجہ سے شرکت نہ کر سکنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یہ وقف کی حفاظت کی لڑائی ہے، جو دراصل ہماری بقا کی لڑائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی قانون 2025 درحقیقت مذہب میں براہ راست مداخلت ہے اور مسلمان ہر چیز سے سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن شریعت میں مداخلت کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جا سکتی۔انہوں نے کہا، ’’یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چیز ہماری ہو اور رکھوالی کوئی اور کرے؟ وقف کو بچانا ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ یہ قانون آئین، جمہوریت اور سیکولرزم کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔‘‘
مولانا ارشد مدنی نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ وقف قانون کے خلاف پوری ملت، تمام ملی تنظیمیں اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں متحد ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر ہم اجتماعی شعور اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں، تو ہمیں کوئی بھی حکومت نظر انداز نہیں کر سکتی۔
انہوں نے ملک میں آئینی اداروں کی کمزوری اور جمہوری قدروں کے زوال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ملک میں جو یکطرفہ سیاست کی جا رہی ہے، وہ آئین کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آئین کی بالادستی ختم ہو گئی تو جمہوریت کا وجود بھی باقی نہیں رہے گا۔انہوں نے تاکید کی کہ وقف قانون کا مسئلہ کسی بھی صورت ہندو-مسلم مسئلہ نہیں بننے دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی فرقہ پرستی اور سیکولرزم کے درمیان ہے۔ وقف سے متعلق پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ضروری ہے تاکہ اکثریتی طبقہ مسلمانوں کے خلاف نہ کھڑا ہو۔مولانا مدنی نے بتایا کہ جمعۃ علماء ہند نے آئینی دائرے میں رہتے ہوئے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ عدالت کی جانب سے بعض دفعات پر روک لگانا خوش آئند ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے