ملاحظات :(مولانا )عبدالحمید نعمانی
ماضی پر حال کے لوگوں کا کوئی اختیار نہیں ہوتا ہے، لیکن کچھ عناصر بے دانشی سے حال میں رہ کر ماضی میں خود کو لے جانے کی کوششیں کرتے نظر آتے ہیں اور ناسمجھی پر مبنی کام سے ماضی میں جو خلا پیدا ہوتا ہے اسے بے جوڑ باتوں سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ کبھی بھی بہتر شکل میں بر آمد نہیں ہوتا ہے، گزشتہ کچھ دنوں سے مغل، خاص طور سے اورنگزیب کو تاریخ، جو ماضی کا بیانیہ ہے سے نکال دینے پر خاصی توجہ و توانائی صرف کی جا رہی ہے، مگر اس پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے کہ اس سے جو تاریخی خلا پیدا ہو گا اور جو سوالات کھڑے ہوں گے اس کو پر کر کے جوابات کی فراہمی کی کیا صورت ہو گی ؟اکبر کے بغیر مہا رانا پر تاپ، اورنگزیب کے بغیر شیوا جی، اوپر جا کر بابر کے بغیر رانا سانگا کی تاریخ کیا مکمل ہو سکتی ہے؟کچھ لوگ مورخ بن کر سید سالار مسعود رح کے وجود کو مشکوک قرار دینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں لیکن اس سے تو سہیل (سہر ) دیو کا وجود بھی مشکوک ہو جاتا ہے ،ایسے لوگ وقتی مصالح کے پیش نظر اس پہلو کو اجاگر نہیں کرتے ہیں، مغل عہد خاص طور سے اورنگزیب کے دور حکمرانی کو سراپا شر بتاتے ہوئے ایسے رنگ میں پیش کرنے کا چلن تیزی بڑھتا جا رہا ہے کہ اس میں کچھ بھی اچھے اور قابل ذکر تعمیری کام نہیں ہوئے ہیں، اس رویہ و روش کا تاریخی عمل اور صحیح تاریخ کو سامنے لانے سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ دستیاب متون تاریخ کے خلاف سراسر تاریخ کے نام پر مفروضہ تاریخی تشریحات و قیاسات پر مبنی ہے، سمراٹ اشوک ہو یا اورنگزیب، اگر ان کے طویل دور حکومت کے چند معاملے کو نمایاں کر کے خاص رنگ میں پیش کر کے کوئی بھی آدمی مکروہ شکل دے سکتا ہے ،مثلا سمراٹ اشوک کے عہد حکمرانی کے اچھے کاموں کو نظرانداز کر کے، تاریخ میں مندرج معروف واقعات کو نمایاں کر کے یہ تصویر پیش کی جائے کہ
*اشوک نے اقتدار پرستی کے جذبے سے کلنگ کی جنگ میں ایک لاکھ افراد کا قتل کیا،
*ڈیڑھ لاکھ افراد کو قیدی بنایا،
گدی کے لیے اپنے سو بھائیوں کو قتل کر دیا،
*وہ ایک کٹر مذہبی حکمراں تھا کہ اس نے بدھ مت کی تبلیغ و توسیع کے لیے نہ صرف یہ کہ اپنے رشتے داروں کو اپنے کنٹرول والے علاقوں کے مختلف گوشوں میں بھیجا بلکہ اپنی حکومت کے حکام و افسران کو بھی اس کام پر لگا دیا اور اس میں سرکاری خزانے کا استعمال کیا، اس کی طرف معروف مورخ اوم پرکاش پرساد شعبہ تاریخ پٹنہ یونیورسٹی نے بھی اپنی کتاب "اورنگزیب، ایک نیا زاویہ نظر ” میں اشارے کیے ہیں، مذکورہ قسم کے منتخب واقعات سے کوئی بھی آدمی بآسانی سمراٹ اشوک کو ظالم و جارح، بے رحم، قاتل، مذہبی جنونی ثابت کر سکتا ہے اورنگزیب کے متحدہ بھارت کا ایریا، سمراٹ اشوک سے بھی بڑا تھا، یہ سر جدو ناتھ سرکار نے بھی ہسٹری آف اورنگزیب کی جلد اول کے مقدمہ میں تسلیم کیا ہے، جب کہ دوسری طرف ہندستان کے سلطانوں اور مسلم حکمرانوں کے ساتھ سمراٹ اشوک کا ملا کر مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ان میں سے کوئی نہیں جس نے بہ قول ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد سمراٹ اشوک کی طرح اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کیا کیا ہو، دشمنوں کو قیدی بنایا ہو اور اپنے مذہب کے لیے سرکاری خزانے کا استعمال کیا ہو،
لیکن تاریخ میں مذکورہ واقعات کے درج ہونے کے باوجود سمراٹ اشوک کو، اس کے دور حکومت کے دیگر کاموں، کارناموں سے الگ کر دکھانا، بتانا، دیانت داری، ایمانداری اور صحیح تاریخ نگاری نہیں ہو گی، پورے معاملے کے تناظر میں سمراٹ اشوک کی تصویر و شبیہ مذکورہ تصویر سے الگ نظر آتی ہے یہی معاملہ مسلم حکمرانوں خصوصا مغل عہد اور اورنگزیب کا بھی ہے، ایسی حالت میں کسی بھی عہد حکمرانی کو تاریخ اور نصاب سے ایک مخصوص ذہنیت و جذبے کے تحت نکال دینا، کوئی راست رویہ نہیں ہے، اس سلسلے میں ایسی اکثریت کے جذبات کے لحاظ کا حوالہ دینا غیر دانش مندانہ رویہ ہے جسے تاریخ اور اس کے زیر اثر تشکیل پانے سماجی محرکات و اسباب کا کوئی زیادہ پختہ علم و آگہی نہیں ہے، حالاں کہ یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ اکثریت کا تاریخ کا رخ غلط سمت میں موڑنے کے عمل سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے بلکہ اس کے ایک چھوٹے سے گروہ کے خصوصی ذاتی مفادات کے تحت یہ سب انجام پاتا ہے،ماضی میں آزادی سے پہلے برٹش سامراج کے فرقہ وارانہ مقاصد کی تکمیل کی خاطر سامراجی مورخین، ایلیٹ، ڈاؤسن وغیرہ اور فرقہ واریت سے متاثر ان کے موقف کے مطابق ہی سرجدو ناتھ سرکار، آرسی مجمدار، وی ایس اسمتھ وغیرہ نے بھی جانے ان جانے مسلم حکمرانوں خصوصا مغل حکمراں اورنگزیب کے متعلق جانبدارانہ رویہ کا اظہار کیا ہے، اس کا اثر بڑے حصے پر پڑا کہ ان کا منہج مطالعہ تاریخ کو آزادی کے بعد نصاب میں بھی شامل کر دیا گیا، ان سامراجی اور فرقہ وارانہ ذہنیت والے مورخین کے برعکس 1960 کے آس پاس جب زیادہ تحقیق اور غیر جانبداری کے ساتھ تاریخی حقائق و واقعات کو سامنے لانے کی کوشش، ہربنس مکھیا، شتیش چندر، رومیلا تھاپر، عرفان حبیب، ایس نورالحس، اطہر علی، وغیرہم کی طرف سے شروع ہوئی تو اس کو بے اثر کرنے اور غلط رنگ دینے پر پورا زور صرف کیا گیا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے، تاریخ کے مطالعے کا یہ منہج و زاویہ پوری طرح غلط ہے، سر جدو ناتھ سرکار نے انگریزی راج کی تحسین کے باوجود اصل تاریخی متون کا جو بہت بڑا حصہ پیش کیا ہے وہ ان کے تبصرے و تنقید کے برخلاف، بڑی حد تک صحیح حقائق کو پیش کرتا ہے، گزشتہ دنوں مئی کے آخری ہفتے میں پونے ایک علمی مذاکرے میں راقم سطور نے اس تعلق سے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی، لیکن ڈیڑھ دو گھنٹے کے بیان میں وسیع پیمانے پر پھیلائے گمراہ کن شر انگیز خیالات سے پردہ اٹھانا ممکن نہیں ہے، مغل عہد اور اورنگزیب کو غلط رنگ میں پیش کرنے والے عموما متعین حوالے کے ساتھ، معاصر تاریخی کتب کا واضح حوالے کے بغیر اپنے تبصرے کو بہت مکروہ شکل میں پیش کرتے ہیں، جس سے سمراٹ اشوک کی مذکورہ مکروہ تصویر سامنے آتی ہے، اس کی ایک مثال مولانا وحید الدین خاں رح ہیں وہ اپنی مخصوص سوچ کے تحت جن معروف قابل ذکر مسلم شخصیات کے متعلق منفی رویہ رکھتے تھے ان میں اورنگزیب کا نام بھی شامل ہے، انھوں نے جولائی 1990 کے الرسالہ میں” ایک جائزہ ” کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا، اس میں وہ اکبر کی پالیسی کی تحسین و دفاع کرتے ہوئے اورنگزیب کے متعلق لکھا ہے کہ آخری مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر(1618 تا 1707)کے زمانہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات دوبارہ خراب ہو گئے، اورنگزیب نے اپنی نا عاقبت اندیشانہ پالیسیوں سے راجپوت، مراٹھا اور سکھ ہر ایک کو اپنا مخالف بنا لیا، حتی کہ عام ہندو بھی اس کو نا پسند کرنے لگے اس کے نتیجہ میں از سر کشیدگی کا ماحول پیدا ہو گیا اور اورنگزیب کے بعد مغل سلطنت کا زوال شروع ہو گیا، (صفحہ 4/5)
اورنگزیب کو آخری مغل شہنشاہ قرار دینا تاریخ دانی کا کوئی اچھا نمونہ نہیں ہے، مولانا وحید الدین خاں نے اپنے تین صفحات کے مضمون میں کوئی معاصر تاریخی حوالہ نہیں دیا ہے، ان کا پورا تبصرہ یورپی سامراجی مورخین اور فرقہ واریت سے متاثر ہندستانی مورخین کے تبصرے پر مبنی ہے نہ کہ مغل عہد کے معاصر ماخذ پر، معاصر مغل عہد کے ماخذ سے اورنگزیب کے صبر و تحمل، سیاسی تدبر و بصیرت، بے داغ کردار، مذہبی رواداری، فتوحات کا ثبوت ملتا ہے، راجپوتوں کی بڑی تعداد آخر تک اورنگزیب کے ساتھ رہی، مراٹھا، سکھ وغیرہ کی ناراضی اور تعلقات خراب ہونے میں اورنگزیب کی پالیسیوں کا کوئی دخل نہیں تھا، گزرتے دنوں کے ساتھ ان میں آزادی و خودمختاری کا ذہن پروان چڑھنا شروع ہو گیا تھا، وہ مرکز سے بغاوت کر کے اپنی آزاد حکومت قائم کرنے کے خواہاں تھے، اسے کوئی بھی سمجھ دار، با ہمت حکمراں برداشت نہیں کر سکتا ہے، یہی اورنگزیب نے بھی کیا تھا، اس میں وہ کامیاب تھا، خاں صاحب کو بھی لکھنا پڑا کہ اورنگزیب کے بعد مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہو گیا، اگر اورنگزیب کی پالیسیاں نا عاقبت اندیشانہ ہوتیں تو اورنگزیب کی زندگی میں ہی مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہو جاتا، اورنگزیب کی مذہبی رواداری، ایک تاریخی حقیقت ہے، یہ باتیں ہم نے مولانا وحید الدین خاں سے ملاقات کر بھی کہی تھیں، ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ کے محبوب مورخ علامہ شبلی رح کی تحقیق آپ کے موقف کے خلاف ہے، آپ بذات خود حکومت قائمہ کے خلاف اقدام کو پسند نہیں کرتے ہیں، لیکن اورنگزیب کی مستحکم حکومت کے علاقائی گروؤں کی شورش و اقدام پر تنقید کی بجائے، اورنگزیب اور اس کی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہیں، یہ فکری تضاد ہے، سوال یہ ہے کہ درپیش حالات میں اورنگزیب کو کیا کرنا چاہیے ، مولانا وحید الدین خاں نے کسی بات کا معاصر ماخذ کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا، صرف یہ کہتے رہے کہ ایسے ایسے تجزیے پہلے بھی آ چکے ہیں، ہم نے یہ بھی کہا کہ آر ایس ایس اور ہندوتو وادیوں میں سے ایک بھی نام سامنے نہیں آیا جس کے تجزیے کو دیانت دارانہ مستند تاریخی تجزیے کے زمرے میں رکھا جا سکے، پروفیسر راگی جیسے لوگ شر انگیزی کرتے ہیں نہ کہ انصاف پر مبنی تاریخی تجزیہ، آج جب کہ تاریخ کو مسخ کر کے نصاب سے تاریخی کرداروں کو نکالنے کی مہم زوروں پر ہے تو ضروری ہو جاتا ہے کہ تاریخ، مغل عہد اورنگزیب وغیرہ کے متعلق صحیح و بہتر منہج مطالعہ کو سامنے لایا جائے،