ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
الہ آباد ہائی کورٹ نے اترپردیش حکومت سے ملیانہ میں ہوئے مسلم قتل عام کے مقدمہ پر تیزرفتار سنوائی کو لے کر جواب طلب کیا ہے، حادثہ مئی 1987 کا ہے جب میرٹھ ضلع کے ملیانہ گاوں میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران 72 مسلم نوجوانوں کو پی اے سی کی 44 ویں بٹالین کے ذریعےحکومت کی سرپرستی میں قتل کردیا گیا تھا۔ آج 32 سال گزرجانے کے بعد بھی اس قتل عام کا مقدمہ جوں کا توں ضلعی عدالت کی فائلوں میں دبا ہوا ہے۔ قتل عام کی ایف آئی آر متعلقہ پولیس اسٹیشن کے ساتھ متعلقہ عدالت کے ریکارڈ فائلوں سے بھی غائب کی جاچکی ہے، اتنے اہم مقدمے کی ایف آئی آر کا عدالت و پولیس تھانے کی فائلوں سے غائب ہونا ملزمین اور حکومتی افسران کی سازباز کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ گزشتہ 32 سالوں میں استغاثہ یعنی سرکاری وکلا کے ذریعے سو سے زائد بار سنوائی کو موخر کرنے کی درخواستیںدی گئیں اور ہر درخواست پرفاضل جج کا بآسانی سنوائی کو موخر کرنا نظام انصاف کو یقینا ناکام کرنے کے مترادف ہے، اس مقدمہ میں کرمنل کیس ہونے کی بنیاد پرسرکاری وکیل کو متاثرین کے وکیل و معاون کی حیثیت حاصل ہے۔
ملیانہ قتل عام کی جوڈیشیل انکوائری کے لئے حکومت نے جسٹس شریواستو کمیشن کی تشکیل کی تھی لیکن آج تک اس کمیشن کی رپورٹ کو صوبائی حکومت نے عوام کے سامنے پیش نہیں کیا، کمیشن کی رپورٹ کو اس طرح دبائے رکھنے میں سابقہ تمام ہی اترپردیش کی صوبائی حکومتوں کی منشا یقینا ملزمین کی پشت پناہی ہی ہوسکتی ہے، اس دوران کانگریس پارٹی کے علاوہ سماجوادی پارٹی و بہوجن سماج پارٹی کی اترپردیش میں حکومت رہی ہیں ۔
اپریل 1987 میں اترپردیش کے ضلع میرٹھ میں ہندومسلم فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے، جس کے بعد اترپردیش کانگریس حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں، جس کے احتجاج میں مسلمان سڑکوں پر آگئے، ان احتجاجات کے خلاف صوبائی حکومت نے مئی کی19 سے 23 تاریخ تک پورے میرٹھ ضلع میں کرفیو نافذ کردیا تھا، 22 مئی کو پی اے سی نے میرٹھ کے ہاشم پورہ گاوں میں سیکڑوں مسلم نوجوانوں کو گھروں سے نکال کر ہاتھ اوپر کرکے پریڈ کرائی اور پی اے سی کے ٹرکوں میں بھرکر لے گئے، پی اے سی نے کچھ کو تو پولیس اسٹیشن میں گرفتار کیا جب کہ کئی ٹرک گنگا ندی کے کنارے لے جائے گئے اور ان مسلمانوں کولائن سے کھڑا کرکے باری باری گولیاں مارکرقتل کرکے لاشوں کوگنگا ندی میں بہادیا گیا، کئی روز تک لاشیں برآمد ہوتی رہیں، ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق “حکومت کی ایک ایجنسی نے ایک مخصوص آبادی کو نشانہ بناکر چھاپہ مارا، مخصوص شہریوں کو مذہبی شناخت کی بنیاد پر اکٹھا کیا، ان کو اپنی تحویل میں لیا، نیز اپنی تحویل میں ہی ان کا قتل عام کرکے ان کی لاشوں کو ندی میں بہا دیا گیا۔”
ہاشم پورہ قتل عام کے اگلے دن 23 مئی 1987 کو پی اے سی کے جوانوں نے میرٹھ ضلع کے ہی ایک دوسرے گاوں ملیانہ کو گھیر لیا، پی اے سی کا کہنا تھا کہ میرٹھ کے دیگر قصبات کے مسلمانوں نے ملیانہ میں پناہ لی ہے، ملیانہ میں پی اے سی نے مسلم آبادی پر بنا کسی تفریق کے مرد عورت بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور کچھ زخمیوں کو تو انکے گھروں میں ہی جلا دیا گیا، رپورٹوں کے مطابق ملیانہ گاوں میں 80 لاشیں برآمد ہوئی تھیں جن کے قتل عام کا الزام پی اے سی کے اوپر تھا، لیکن ایف آئی آر میں پی اے سی کی جگہ ملزمین کی شناخت نامعلوم ہی لکھی گئی تھی۔
ملیانہ و ہاشم پورہ قتل عام میں کل اموات کا اعدادوشمار تو موجود نہیں ہے، سرکاری اعداوشمار کے مطابق مئی کی 19 سے 23 تاریخ کے درمیان تقریبا 117 افراد کی موت ہوئی تھی، 159 افراد زخمی ہوئے تھے، 623 مکانات، 344 دوکانیں اور 14 کارخانے لوٹے و نذر آتش کئے گئے تھے۔ جب کہ ایک دیگر رپورٹ کے مطابق 21 سے 25 مئی کے درمیان 295 مسلمانوں کا قتل ہوا تھا، نیز یہ قتل عام پولیس اور پی اے سی کے ذریعے یا ان کی سرپرستی میں ہوا تھا، جب کہ قتل کی وارداتوں کا سلسلہ 15 جون 1987 تک جاری رہا تھا۔
ہمارے لئے فرقہ وارانہ فسادات کی فہرست بہت لمبی ہے لیکن ان فسادات میں حکومت اور حکومت کی ایجنسیوں کا کیا رول رہا ہے اس پر غور کرنا ضروری ہے، ملیانہ اور ہاشم پورہ قتل عام کے بعد پہلے تو حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کچھ لوگوں نے پولیس کی یونیفارم چوری کر کے یہ وارداتیں انجام دی ہیں۔ اترپردیش کے وزیراعلی وی بی سنگھ (کانگریس) نے پہلے تو دعوی کیا تھا کہ مسلمان ہی ان قتل عام کے ذمہ دار ہیں اور پی اے سی کی کاروائی کو برحق ٹھہرایا تھا، وی بی سنگھ نے پہلے تو پی اے سی کے کمانڈنٹ آر ڈی تریپاٹھی کو سسپنڈ کیا لیکن اگلے ہی روز کمانڈنٹ آر ڈی تریپاٹھی کو بحال کردیا گیا تھا۔ مرکزی وزیرداخلہ بوٹا سنگھ نے نیشنل انٹگریشن کاونسل سے کہا تھا کہ ملیانہ میں صرف 10 افراد کا قتل ہوا ہے۔ راجیوگاندھی جو کہ ملک کے ےوزیراعظم تھے انہوں نے میرٹھ ملیانہ کے متاثرین کو معاوضہ تو دیا لیکن سیکیورٹی فورسز کا قتل عام میں ملوث ہونے کا اعتراف نہیں کیا تھا۔
ملیانہ کے قتل عام کا حادثہ ہمارے عدالتی نظام کے سامنے سوالیہ نشان لگاتا ہے، 32 سال کا طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ضلع عدالت میں مقدمہ ابھی تک شروع نہیں ہوسکا، کسی بھی کرمنل مقدمے میں سب سے اہم کردار گواہوں کا ہوتا ہے، ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن میں ہائی کورٹ سے متاثرین نے گہار لگائی ہے کہ پولیس اور پی اے سی کے ذریعے گواہوں اور متاثرین کو ڈرانے دھمکانے کی مسلسل کوششیں کی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی غیرانسانی واردات کے گواہوں کو عدالت نے کوئی تحفظ فراہم کیا؟ کیا اتنے طویل عرصے کے بعد ملزمین کو سزا دینا ممکن ہوگا؟ کیا سنوائی میں تاخیر متاثرین کے انصاف پانے کے حق کے خلاف نہیں ہے؟
ملیانہ قتل عام سے ایک دن پہلے ہاشم پورہ میں پی اے سی کی اسی ٹیم نے جو قتل عام کیا تھا اس مقدمہ میں ضلعی سیشن عدالت نے مارچ 2015 میں یہ کہتے ہوئے تمام ملزمین کو بری کردیا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ 40-45 افراد کو پی اے سی کے پیلے رنگ کے ٹرک میں بھر کر لے جایا گیا تھا جو کہ پی اے سی کی 41 ویں بٹالین کا تھا۔ لیکن پھر دہلی ہائی کورٹ نے 2018 میں اپنا تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے پی اے سی کے 16 جوانوں کو عمرقید کی سزا سنائی تھی جب کہ دیگر تین ملزمین کی موت ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف سزا نہیں ہوسکی تھی، دہلی ہائی کورٹ کے مطابق 22 مئی 1987 کو پی اے سی جوانوں نے ہاشم پورہ میں 40 مسلم بے گناہوں کو گرفتار کیا تھا اور بعد میں ان کا قتل عام کیا تھا۔
ہمارے ملک میں اقلیتی طبقات کے خلاف خاکی وردی کا غیر قانونی استعمال سیکولر کانگریس سرکاروں نے بھی خوب کیا ہے، ان خاطی پولیس افسران کو سیاسی سرپرستی بھی حاصل رہی ہے، موجودہ سرکاروں کے علاوہ انگریزوں کے بنائے قانون نے بھی خاکی وردی کو جو تحفظ فراہم کیا تھا وہ تحفظ آج کے آزاد ہندوستان میں بھی باقی رکھا گیا ہے۔ کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 197 کے تحت کسی بھی پولیس اہلکار کے خلاف قانونی پیش رفت کرنے سے پہلے حکومت کی اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ ایک ایسا قتل عام جس میں ایک مخصوص مذہبی طبقے کو نشانہ بنایا گیا، اگر میرٹھ اور اس کے اطراف میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے ذمہ دار مسلمان تھے تو کیا جرم ثابت کرنے کے لئے عدالتی نظام موجود نہیں تھا؟ کیا ایک ایسی واردات جس میں تقریبا سو سے زائد شہریوں کی جان گئی تھیں اس واردات کے متاثرین کو آزاد جمہوری ملک کی خودمختار عدالتیں تین دہائیوں سے زائد عرصے میں بھی انصاف کو یقینی بنانے کی ہمت و حیثیت نہیں رکھتی ہیں؟ دستور ہند نے تمام شہریوں کو بغیر کسی تعصبو تفریق کے انصاف دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج وہ وعدہ ٹوٹتا ہوا دیکھ کر ملک کا مسلمان یقینا نظام عدلیہ سے سوالات کرے گا؟