تحریر قاسم سید
ہندوستانی مسلمانوں کی اکلوتی وفاقی تنظیم سمجھی جانے والی آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی عاملہ کی میٹنگ عرصہ کے بعد کل یعنی چار دسمبر کو ہورہی ہے ،اس میں مختلف امور پر بحث ہوگی ۔امید کی جارہی ہے کہ آپسی اختلافات اور تعطل کا شکار مشاورت میں میٹنگ کے بعد مثبت سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور جمود کی برف پگھلے گی حالانکہ مشاورت ان دنوں جس بحران،کھینچا تانی،خلفشار اور شخصی تصادم کےافسوس ناک دور سے گزررہی ہے ،اس پس منظر ایسی کوئ توقع خوش گمانی معلوم ہوتی ہے ۔بہر حال امید تو خیر کی ہی کرنی اور رکھنی چاہیے۔
جہاں تک مشاورت کے معاملات کا تعلق ہے بعض شخصیات کے سخت اور جارحانہ تحفظات نے اسے نیم جاں کردیا ہے اور یہ سوال پیدا ہونے لگا ہے کہ کیا اس کی افادیت ،ضرورت اور اہمیت باقی بھی ہے یا نہیں ،اور کیا یہ صرف لوگوں کے سیاسی طور پرقد کو بنانے اور پروفائل تیار کرنے کے کام کی رہ گئ ہے۔لوگ آج بھی ماضی جیسی فعالیت کی بجا طور پر امید کرتے ہیں ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ ماضی میں اختلافات نہیں تھے پہلے بھی تھے ،قد آور ہستیوں پر بھی الزامات لگتے رہے ہیں ایسا مرحلہ آیاکہ مشاورت دو حصوں میں تقسیم ہوگئ وہ سارے لوگ محترم تھے ،معروف تھے صاحب فہم و ذکا تھے ،مگر وہ دوٹکڑ ں میں بنٹنے سے خود کو نہ روک سکے ،شخصیات کا تصادم جس پر ہمیشہ اصول ،دستور اجتماعی کاز ق کا ریشمی غلاف ڈال کر جاذب نظر بنایا گیا ہے وہ اپنی شکل بدلتا رہا ہے اور مشاورت کی دوسری شناخت بن گیا ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ اس سے مستقبل قریبد میں نجات ملے گی جب اختلاف و تنقید حدوں سے گزر کر عدم برداشت،اور انتقامی کیفیت میں بدل جائیں تو وہاں صلح جوئی،مفاہمت
عزت نفس کا لحاظ اور ادب و احترام کے جذبات و احساسات دم توڑدیتے ہیں ، حد تو یہ ہے کہ سارے "نیک کام” اداروں کے تحفظ کے نام پر ہوتے رہے ہیں
جب باہمی احترام کی جگہ گریبانوں سے کھیلا جانے لگے ،دوسرے کی راۓ سننے کا مادہ نہ رہے ،جمہوری فیصلوں کو قبول نہ کیا جاے اور کارکنوں کو دستوری تحفظ میں بات رکھنے کا پلیٹ فارم حق کے باوجود نہ دیا جاۓ وہاں کانا پھوسی، مشوروں کی جگہ سازشیں اور قائدین میں شورائیت کی جگہ آمریت کا مزاج انڈے بچے دینے لگتا ہےاس طرح کے ماحول میں شرارتی عناصر کو اپنے "جوہر” دکھانے کا موقع ا ور کھاد مل جاتا ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے زیادہ تر ادارے کرونا سے زیادہ خطرناک ان جیسے امراض کا کہیں کم اور کہیں زیادہ مبتلا ہوگیے ہیں اورمشاورت کو اس سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے،ملت میں ایسے لوگ بہت کم رہ گیے جن کی بات یا فیصلہ کو اختلاف ختم کرنےکے لیے بلا لحاظ مسلک وجماعت لوگ قبول کرلیں۔
مشاورت اس وقت دوراہے پر کھڑی ہے کشمکش ،چپق
چپقلش اور نزاعی معاملات میں سمت کہیں کھوگئ ہے کسی ایک کو اس صورتحال کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا اس کے لیے کم و بیش سبھی ذمہ دار ہیں اس کی عظمت رفتہ کی بحالی اجتماعی کوششوں کی متقاضی ہے۔ ایک دوسرے پر الزام کی بجاۓ ہر کوئ اپنے حصے کا کام کرلے تو حالات بدل سکتے ہیں مشاورت اپنی تمام تر خوبیوں،خامیوں اور اچھائیوں کے ساتھ اپنی اہمیت کی حق دار ہے ۔