تحریر:فیاض احمد فیضی
مسلم مسائل اور ایشوز کے تعلق سے مین اسٹریم میڈیا میں مسلم اسکالر،دانشور اور کالمنسٹ کیا لکھ رہے ہیں ہمارے قاری کو اس سے واقف رہنا چاہیے ’دی پرنٹ‘ میں شائع یہ مضمون اسی احساس اور ضرورت کے تحت دیا جارہا ہے ،اس کے مندرجات سے اتفاق ہو یہ لازمی نہیں ،اس کا جواب یا ردعمل کے لیے خیر مقدم ہے ۔(ادارہ)
اس وقت عالمی سطح پر افغانستان میں طالبان کی واپسی سب سے زیادہ زیر بحث ہے اور ہو بھی کیوں نا؟ روس، چین جیسے کمیونسٹ ممالک اور پاکستان ،ایران جیسے بنیاد پرست مذہبی ممالک سے گھرا قرون وسطی کی ذہنیت کے حامل افغانستان کو امریکہ جیسی سپرپاور کوخالی کرنا پڑا اور یہ یوں ہی نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ سے یورپ ،امریکہ، سمیت ایشیاکے ملک بھی اپنے مفاد کے موافق طالبان کے واپسی پر احتیاط برت رہے ہیں۔
بھارت کے لیے افغانستان ہمیشہ سے ایک اہم خطہ رہا ہے اس لئے بھارت میں طالبان کو لے کر کافی ہلچل ہے۔ ایک جانب جہاں یہ براہ راست بھارت کی خارجہ پالیسی ہے تو دوسری طرف کچھ گروہ اور طبقے کے لوگ اپنے سیاسی فوائد کے لیے اس مسئلے کو اپنے سر پر اٹھائے گھوم رہے ہیں۔ اس تسلسل میں سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ شفیق الرحمن برق ، مشہور شاعر منور رانا ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان مولانا سجاد نعمانی کے طالبان کا گلوریفائی کرتےہوئے بیانات آئے ہیں۔ تمام مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر بیان دینے والے یہ لوگ مسلم سماج کے اشراف طبقہ سے آتے ہیں جو اس ملک کے کل مسلم آبادی کا صرف دس فیصد ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کے بیان بغیر سوچے سمجھے جذبات میں آکر دیئے گئےہیں۔ اس طرح کے بیانوں کا سیدھا سا مقصد مسلم فرقہ واریت کو فروع دینا ہوتا ہے ۔ جس کے نتائج میں اشراف طبقہ کی اقتدار اور بالادستی پر پکڑ مضبوط بنی رہتی ہے ۔ وہیں مقامی پسماندہ (مسلم مذہبی قبائلی، دلت، پسماندہ ) مسلمان اس کا خمیازہ فرقہ وارانہ فسادات اور ہجومی لنچنگ جیسے واقعات میں اپنا خون دے کر ادا کرتے ہیں۔
اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دوقومی نظریہ اور مسلم فرقہ واریت کی مخالفت میں سب سے مضبوط آواز عاصم بہاری کی قیادت میں مقامی پسماندہ مسلمان رہے ہیں اور وہ آخر تک ملک کی تقسیم کے خلاف رہے۔ اس قابل فخر روایت کی پیروی کرتے ہوئے ، مختلف پسماندہ تنظیمیں اور اس کے کارکن پورے ملک میں پھیل گئے ، سوشل میڈیا اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے ، اشراف طبقے کے لوگوں کی طرف سے طالبان کی تعریف کرنے والے بیانات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے، سخت مذہبی، جاگیردارانہ اور قرون وسطی کی ذہنیت کی مخالفت کررہے ہیں ۔
اگر ہم طالبان کے تنظیمی ڈھانچے پر نظر ڈالی جائے تو اس کی نسلی اور ذاتی ساخت میں پٹھان (پختون) قبیلے کے لوگ حاوی ہے، جو افغانستان میں بسنے والے دیگر قبائل (نسلیں) جیسے ہزارہ، تاجک ، ایمک ، ترکمان ، بلوچ ، نورستانی ، ازبک وغیرہ کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ کھلے عام امتیازی سلوک کرتےہیں ۔ ان کے نزدیک افغانستان کا مطلب پٹھانستان ہے۔ یہی ایک بڑی وجہ بنتی ہے کہ طالبان کو پورے افغانستان کے لوگوں کی حمایت حاصل نہیں ہے اور شمالی افغانستان میں جہاں پٹھانوں کی آبادی کم ہے طالبان مخالف تنظیموں سے ان کی مخالفت شروع کردیا ہے ۔ خود افغانستان کے نائب صدر جو پٹھان نہیں ہے، انہوںنے آخردم تک طالبان کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا ہے ۔
طالبان کے دیوبندی نظریہ کے بارے میں بھی غلط فہمی ہے۔ کچھ لوگ اس معاملے میں سہارنپور کےقصہ دیوبند میں واقع اسلامی تعلیم کے مرکز دارالعلوم (ہاؤس آف ایجوکیشن) کو بالکل کلین چٹ دے رہے ہیں ، جبکہ کچھ لوگ دیوبند کے ساتھ اس کے تعلق کی وکالت کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ جہاں تک نظریے کا تعلق ہے ،اس میں کسی کو کسی بھی طرح کا مغالطہ نہیں ہونا چاہئے کہ طالبان دیوبندی نظریات کے ہی ماننے والے ہیں۔ اسلامی شریعت کے قانون کے مطابق اسلام کی کئی ایک طرح تشریح ہے جس میں دیوبندی نظریات (سنی حنفی) بھی ایک ہے جو پورے برصغیر میں سب سے زیادہ موثر ہے کچھ زیادہ نااتفاقی کے ساتھ بریلی نظریات بھی دیوبندی نظریات سے میل کھاتے ہیں۔ بھارت میں اس کی شروعات شاہ ولی اللہ سے مانا جاتاہے ۔ سید احمد بریلوی اور شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل کی قیادتمیں راجا رنجیت سنگھ کے کے سکھ ریاست کی مخالفت میں چلا مشہور جہاد جو وہابی تحریک کی شکل میں تاریخ کی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے ۔ اصل میں دیوبندی تحریک تھی۔
اس جہاد کے پہلے مرحلے میں کچھ علاقہ فتح کرنے کے بعد سید احمد نے خود کو خلیفہ قرار دیا اور امیرالمومنین (تمام اسلامی عقائد کے حکمران) کا لقب اختیار کیا ، لیکن کچھ ہی وقت بعد بالاکوٹ کے میدان میں سکھ فوجیوں کے ذریعہ ان کی حکومت ختم کردینے کے ساتھ ہی اس جہاد کا اختتام ہو گیا۔ پھر کچھ وقت بعد اسی نظریات کو زندہ رکھنے کے لیے یوھی کے ضلع سہارنپور کے دیوبند قصبہ میں ایک تعلیمی اداہ قائم کیا گیا۔ یہ صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں تھا، بلکہ مغلوں کی شکست کے بعد حکمران طبقہ اشراف مسلمانوں کی طاقت اور عربی ؍ایرانی ثقافت اور تہذیب کو بچانے اور بنائے رکھنے کے لیے تحریک تھی ۔
اس دیوبند کے تعلیمی ادارے سے ایک سماجی تحریک تبلیغی جماعت کی شکل میں ابھرتی ہے جو بتدریج دیوبندی بنیاد پرستی کی عالمی تنظیم کے طور پر نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ملک پھیلتی ہے۔ اس دارالعلوم دیوبند سے جمعیۃ علماء ہند کے نام سے ایک سیاسی تحریک نکلی جس نے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کو بھارت کا ریاستی سربراہ قرار دے کر کابل میں پہلے آزاد ہندوستان کی حکومت قائم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ یہ تنظیم بعد میں دو حصوں میں بٹ گئی اور ایک حصہ پاکستان کی تخلیق میں شامل ہے ، جس میں اہم نام مولانا شبیر عثمانی ، مفتی شفیع عثمانی اور مولانا اشرف علی تھانوی ہیں اور دوسرا حصہ مولانا حسین احمد کی قیادت میں ملک کی تقسیم کی مخالفت میں رہا ہے مگر ایک عجیب ستم ظریفی ہے کہ آج بھی موجودہ ہندوستانی دیوبندیوں کے بھی آئکن پاکستان بنانے والے دیوبندی علماء ( جن کے نام ا وپر درج کئے گئے ہیں) ہیں۔ ان کی تحریرشدہ کتابوں اور تقریروں کے کیسٹس ہندوستانی مارکیٹ میں آسانی سے مل جاتے ہیں ۔
طالبان پٹھان ذات کے لوگ ہیں ، جو پاکستان میں واقع ان دیوبندی مدارس سے نکلے ہیں ، جن کا نظریہ مکمل طور پر بنیاد پرست دیوبندی ہے، چونکہ افغانستان میں ایک کھلا موقع ہے ، جہاد اور قتال کے ذریعے دیوبندی نظریہ کے ساتھ ایک اسلامی ریاست بنانے کی مہم جاری ہے ، پاکستان میں یہی کام جمہوریت کے نام پر جاری ہے ، جبکہ ہندوستان میں جمعیۃ علماء ہند ، مسلم پرسنل لاء بورڈ ، وقف بورڈ وغیرہ حکومت پر دباؤ کے ذریعے اشراف مسلمان اپنی طاقت اور عربی؍ایرانی ثقافت اور تہذیب کو بچا رہے ہیں اور برقرار رکھے ہوئے ہیں ، جس کا محروم مقامی پسماندہ مسلمانوں کےسکھ دکھ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔
موجودہ ہندوستانی دارالعلوم دیوبند کا شاید طالبان سے کوئی براہ راست تعلق نہ ہو ، لیکن نظریاتی اور تاریخی روابط کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی سطح پر سعودی عرب وہابی بنیاد پرست نظریہ کی ریاست ہے ، ایران شیعہ بنیاد پرست اسلامی انقلاب کی ریاست ہے اور افغانستان دیوبندی بنیاد پرست نظریے کی ریاست ہے۔ آنے والے دنوں میں اس پورے خطے پر کس کے اسٹریٹجک اور سیاسی اثر و رسوخ کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان اس ملک کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے ملک کے اندر ان تین اقسام کے بنیاد پرست نظریات کی نشوونما اور ترقی پر کڑی نظر رکھے۔