ملاحظات :(مولانا)عبدالحمید نعمانی
کچھ دنوں پہلے گجرات کی سابق وزیر اعلی اور حال کی گورنر آنندی بین کے حالات زندگی پر مشتمل ایک کتاب،” چنوتیاں مجھے پسند ہیں ” کے نام سے شائع ہوئی تھی اس کی رسم اجرا کی تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ اور راجیہ سبھا اسپیکر، جگدیپ دھنکھڑ نے کہا کہ اپنوں سے ملنے والی چنوتی خطرناک ہوتی ہے، اس کے تحت انہوں نے پہلگام دہشت گردانہ حملے اور پارلیمنٹ سے پاس وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ کا رخ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جو چنوتی اپنوں سے ملتی ہے وہ نہ مبنی بر دلیل ہے اور نہ اس کا راشٹر کی ترقی سے کوئی تعلق ہے،
دھنکھڑ صاحب نے اپنوں سے ملنے والی خطرناک چنوتی کی بات صحیح کہی ہے لیکن مثال میں خلط ملط معاملے ملا کر اپنی بات کو بے معنی کر دیا ہے، وہ اپنی بات ملک کی اصل چنوتیوں تک نہیں لے جا سکے ہیں، وہ ملک کو درپیش اصل چنوتیوں کا ذکر نہ کر کے ملک کے بڑے منصب پر فائز ہوتے ہوئے بھی اس کے تمام باشندوں کے مفاد اور بھارت کے اجتماعی فوائد کے ساتھ خود کو کھڑا کرنے کے بجائے ایک مخصوص پارٹی اور کچھ خاص گروپوں کے ساتھ وابستہ رکھنے میں اپنی عافیت و سعادت سمجھ رہے ہیں ،انھوں نے ہند وپاک کے درمیان کشمکش اور ان کے جنگ کی طرف بڑھنے کی نازک حالت میں بھی فرقہ پرست عناصر کی طرف سے ملک میں کئی قسم کی چنوتیاں پیش کر کے اسے کمزور کرنے کی مذموم کوششوں پر نہ تو کوئی تبصرہ کیا اور نہ ہی ان کو تنبیہ کی کہ وہ سماج میں غلط فرقہ وارانہ تقسیم و تفریق پیدا کر کے بھارت کے وقار و استحکام کی ان دیکھی کر رہے ہیں، جس سے متحدہ قومیت اور راشٹر واد تباہ ہو رہا ہے،
ایسے وقت میں جب کہ بلا امتیاز مذہب و فرقہ تمام محب وطن ہندستانی ایک آواز ہو کر بھارت کے ساتھ کھڑے ہو کر دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہیں تو فرقہ پرست ہندوتو وادی عناصر کا ہندو مسلم کے نام پر ملک کے اندر ہی چنوتیاں کھڑی کرنا ملک مخالف عمل ہے، ساتھ ہی یہ بھی نظر ثانی کا متقاضی ہے کہ اقتدار کی طرف سے راشٹر واد کے نام پر اپنے شہریوں کی آزادی پر قدغن لگانے کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے، مبینہ نیشنل میڈیا کے جھوٹ پروسنے کی بد عادت کو بدلنے کی موثر کوشش کرنے کے بجائے ایسے آزاد سوشل میڈیا پر روک لگانے کی سمت میں مسلسل اقدامات کیے جا رہے ہیں جو کسی نہ کسی درجے میں سرکار سے سوال اور سچ کو سامنے لانے کا کام کرتا ہے اور عام لوگوں کی آواز ہے، اگر وہ غلط خبروں کو نشر کر کے سماج میں پھیلانے، شرارت و شر بڑھانے اور لوگوں کو بھٹکانے کا کام کرے تو اس کے خلاف تادیبی اقدام ہونا ہی چاہیے، لیکن اگر مقبول نیوز پورٹلز سرکار سے ضروری سوالات کے ساتھ، خبر لینے اور خبر دینے کے اپنے فریضہ صحافت ادا کرنے کے تحت حقائق کو سامنے لانے کا کام کریں تو اظہار خیال کی آزادی اور چوتھا ستون ہونے کے پیش نظر ان کی آزادی کو ختم کرنے یا غیر ضروری حد تک اسے محدود کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا ہے، البتہ میڈیا اور پریس کی آزادی کا سہارا لے کر فرقہ واریت، شرارت، سنسنی خیزی پھیلانے اور زردصحافت کے فروغ کی بھی چھوٹ نہیں دی جا سکتی ہے لیکن اپنے مزعومہ راشٹر واد کا حوالہ دے کر جے شری رام کے نعرے کے ساتھ ہندستانی شہریوں کو نشانہ بنانے کی چھوٹ بھی نہیں ہونا چاہیے، اس سمت میں بھی موثر اقدامات کی از حد ضرورت ہے، پہلگام دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے ونے نروال کی بیوی، بہادر خاتون ہمانشی کو یہ کہنے پر کہ مسلمانوں اور کشمیریوں کو نشانہ نہ بنایا جائے، جس طرح ٹرول کیا گیا وہ انتہائی شرمناک ہے، یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہندو مسلم کے نام پر دہشت گردی کرنے والے، مسلم اقلیت کے مکانوں، دکانوں ،گاڑیوں، املاک کو نقصان پہنچانے والے، اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی و یکجہتی اور باہمی پیار، پریم کی باتیں کرنے والوں کو ٹرول کرنے والے ایک ہی قماش و قبیلے کے ہیں، ان کی، ہندوتو وادی عناصر کے طور پر شناخت بالکل واضح ہے، وہ ملک کے مخصوص حالات میں بھی بھارت کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اپنے مخصوص ایجنڈے پر ہی چلتے نظر آتے ہیں، ان کو تقویت، فرقہ وارانہ ذہنیت والے لیڈروں کے بیانات اور پولیس رویے سے بھی ملتی ہے، یہ پاکستان کے ایجنڈے کو بھی آگے بڑھانے میں مدد گار ہے، بھارت میں فرقہ پرست عناصر کی سرگرمیوں سے اسے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے، اسلام اور مسلمانوں کے نام پر وجود میں آنے والا ملک پاکستان، اسلام اور مسلمانوں کے لیے مثال و نمونہ بننے میں پوری طرح ناکام ہے لیکن اسے دہشت گردی کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کبھی بھی کامیابی نہیں مل سکتی ہے، اس کے باوجود بھارت سے تصادم کے حالات بنائے رکھنا، اس کی ضرورت و مجبوری ہے، ایک مسئلہ کشمیر سے پاکستانی قیادت کے مسائل و مشکلات کا حل نہیں نکل سکتا ہے، اگر فرقہ پرست ہندوتو وادیوں کے علی الرغم، بھارت میں، کشمیر بھی ہمارا اور کشمیری بھی ہمارے کا جذبہ مطلوبہ سطح پر پروان چڑھ جائے تو پاکستان کے لیے کھڑے رہنے کے لیے کوئی زمین نہیں رہ جائے گی، اس کے لیے ہندوتو وادیوں کی شر انگیز سر گرمیوں کو پوری طرح ختم کرنا ضروری ہے، گزشتہ دنوں جمیعتہ علماء ہند نے دیوبند میں کشمیر کانفرنس کر کے اس کی طرف اچھی پہل کی تھی، اسے مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، گزشتہ کچھ دنوں میں کشمیری عوام میں بہتر تبدیلی آئی ہے، اس کا ثبوت وہاں کے اسمبلی انتخابات اور پہلگام حملے کے موقع بھی مل چکا ہے، اسے ہندوتو وادی، کشمیری مسلمانوں کو پاکستانی اور غدار کہہ کر اور ان کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلا کر ختم کرنے کا کام کر رہے ہیں، ایسا کر کے وہ دہشت گردوں اور پاکستان کے کاز کو تقویت پہچا رہے ہیں، بدلتے دھماکہ خیز حالات میں جنگ بندی کی بات کے ساتھ دیگر کئی معاملے سامنے آتے رہیں گے، ان سے نمٹنے میں بھارت پوری طرح اہل ہے، اصل معاملہ تو ملک میں فرقہ پرست ذہنیت کے ہندوتو وادیوں کے ذہن میں بہتر تبدیلی ہے، یہ ذہن اس قدر متعصب و متشدد اور منجمد ہے کہ ملک میں کچھ بھی ہوتا رہے، وہ فرقہ وارانہ ایجنڈے کو ترک کرنے کے لیے کسی بھی قیمت پر تیار نہیں ہے، ملک میں جنگ کی حالت میں سارے محب وطن فرقہ وارانہ اتحاد کی بات کر رہے ہیں لیکن فرقہ وارانہ ذہنیت والے سب سے الگ ہی راہ پر گامزن نظر آتے ہیں، یوپی کے وزیر اعلی ہوتے ہوئے بھی، یوگی آدتیہ ناتھ یہ کہہ کر اپنا فرقہ وارانہ ایجنڈا سیٹ کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ لکھنؤ کے حسین گنج چوراہے کا نام اب مہارانا پرتاپ چوراہا ہوگا، اس سلسلے میں وہ شیوا جی اور گرو گوبند سنگھ کا نام بھی لے رہے ہیں، جب کہ ان تینوں شخصیات کا ہندو مسلم فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں ہے، گرو گوبند سنگھ، بت پرستی کے بھی خلاف تھے، یوگی آدتیہ جیسے لوگوں کو ان کے نام پر نیا کچھ کرنے کی تو توفیق نہیں ہے، بس مسلم نام کو ختم کر کے ہندوتو وادی نام کرن کرنے سے مطلب ہے، مسلم اور اسلامی ناموں اور شناختوں سے اس قدر نفرت کا مقصد بہت واضح ہے،
مذہبی بنیادوں پر سماج میں تقسیم و تفریق کر کے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی منصوبہ بند کوششیں، ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کے خلاف ہیں، یہ ملک کے لیے داخلی بڑی چنوتیاں ہیں، کسی بھی مشکل و مصیبت کو اکثریتی سماج کے ہندوتو وادی اپنے لیے موقع کے طور پر استعمال کرتے ہیں، زور زبردستی کا ماحول پیدا کر کے مسلم اقلیت پر دباؤ ڈال کر اسے ہندوتو کے مشرکانہ دائرے میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، مار مار کر جے شری رام کہلوایا جاتا ہے، جب کہ اس نعرے کا بھارت کی جاری روایات سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہی حال وندے ماترم کا ہے، برٹش سامراج کے دور کے برطانوی حامی بنکم چندر کے ناول آنند مٹھ سے وندے ماترم کا آغاز ہوتا ہے، مسلمانوں کو حب الوطنی سے احتراز نہیں ہے لیکن ہندوتو وادی اس پر اکتفا نہیں کرتے ہیں، وہ اپنی طرح کی مشرکانہ راہ پر مسلمانوں کو بھی گامزن دیکھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے کسی کو بھی معبود قرار دے کر اس کی پرستش کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس لحاظ سے وہ کسی طور سے بھی مسلمانوں کے لیے نمونہ نہیں بن سکتے ہیں، لیکن وہ ملک کے شہریوں کو آئین سے ملی مذہبی آزادی کا لحاظ کرتے نظر نہیں آتے ہیں، وہ بڑی آسانی سے اپنی فرقہ پرستی کو راشٹر واد کا عنوان و نام دے کر کہیں بھی فساد اور تخریبی عمل کو، اپنی کثرت سے فائدہ اٹھا کر انجام دیتے نظر آتے ہیں، اس دہشت گردی کو ختم کرنے پر کوئی خاص توجہ نہیں ہے، حالاں کہ اسے ختم کرنا بھی کئی بڑی چنوتیوں میں سے ایک بڑی داخلی خطرناک چنوتی ہے، اس حوالے سے ملک کی مسلم قیادت بھی بہت دباؤ میں ہے لیکن اسے اس چنوتی کو سنجیدگی سے لینا ہو گا، اسے یہ واضح طور سے کہنا ہوگا کہ ہماری حب الوطنی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہے لیکن مفروضہ راشٹر واد کے نام پر ہندوتو ہمارے لیے سرے سے قابل قبول نہیں ہے،