تحریر: قاسم سید:— جمعیتہ علماء ہند (محمود مدنی)کا چونتیسواں عام اجلاس اپنے تیوروں، افراد کی تعداد اور مقتدر لیڈروں کےبیانوں سے پیدا تنازع کے اعتبارسے یاد رکھا جاۓگا۔مگرکیا یہ اجلاس ملک اور مسلمانوں کو کوئ وزن ،بلیوپرنٹ، لائحہ عمل اور2024 کے لیے کوئی ایجنڈا دینے میں کامیاب رہا یا نہیں اس کا تجزیہ کیا جانا باقی ہے اس میں کوئ شک نہیں کہ ملک کی موجودہ نازک صورتحال کے پس منظر میں اس اجلاس سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں کہ ملک کی سب سے قدیم اور مضبوط نیٹ ورک والی جمعیتہ جس کی قیادت بیدار مغز زیرک اور جواں سال مذہبی سیاستداں محمود مدنی کے طاقتور ہاتھوں میں ہے وہ ضرورغوروفکر،اور عمل کے نیے دریچے کھولے گی۔یہ توقعات کہاں تک پوری ہوئیں یہ الگ موضوع ہے دانشور حضرات و سیاسی تجزیہ کار اس کے مضمرات پر ضرور اپنی راۓ رکھیں گے۔
جمعیتہ کا آخری سیشن کافی ہنگامہ خیز رہا مولانا ارشد مدنی نے آر ایس ایس، بی جے پی اور ہندوتو بریگیڈ کے تیار کردہ بیانیہ کو جس انداز میں چیلنج کیا وہ چونکانے والا اور اجلاس کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ حالانکہ محمود مدنی نے ایک دن پہلے وہی باتیں کہی تھیں مگر وہ سیاسی مزاج کے سبب خوبصورت الفاظ کی چاشنی ملا کر مدھم لہجہ میں کڑوی سے کڑوی بات کہہ جاتے ہیں جبکہ سادہ دل سادہ مزاج ،قدآورعلمی شخصیت مولانا ارشدمدنی گھن گرج کے ساتھ بغیر لاگ لپیٹ اور چونکہ، چنانچہ کے دوٹوک انداز میں بات رکھنے کے لیے شہرت رکھتے ہیں ۔ہندوتو کے معروف ایجنڈے یعنی گھرواپسی، ہر بھارتی ہندو،سناتن دھرم راشٹریہ دھرم اور سب سے قدیم مذہب،مسلمان باہری قوم اور دھرم پریورتن کے خلاف قانون سازی کی مہم پر مولانا ارشدمدنی نے جو چوٹ ماری ہے وہ بہت دور تک اور بہت دیر تک محسوس کی جاۓ گی ،یہ چوٹ صحیح جگہ لگی ہے ہندوتوطاقتوں کی تلملاہٹ سے سمجھا جاسکتا ہے،اللہ اور اوم اور آدم و منو کو ایک بتانے کے ساتھ اسلام کو قدیم ترین مذہب کہہ کر (جو صحیح ہے) نئی بحث پورے ملک میں چھیڑدی ،اور نیا بیانیہ پیش کرکے ہندوتو کو الجھن اور دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیاہے۔ مولانا کے لب ولہجہ کی جارحیت، سخت الفاظ کے استعمال کو نظر انداز کردیا جاےتو ان کے بیانیہ نے بہت سوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ہوسکتا ہے کہ مولانا ارشدمدنی بھی خدانخواستہ ‘مشکل’ میں پڑجائیں۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ ان کی تقریر کو ہدف تنقید بنارہا ہے اوم کو پوجنے کی ان کی بات کو حلق سے نہیں اتار پارہاہے۔دوسری طرف اسٹیج پر جوکچھ ہوا اور اس کے بعد مین اسٹریم میڈیا جس طریقہ سے سناتن بنام اسلام کا ایشو بناکر اچھال رہا ہے اس سے ان کی نیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ جب وہ ڈاکٹر چندرشیکھر اور سوامی پرساد موریہ کی ‘گستاخی’ کو برداشت نہیں کرپاتے تو ان کی دم پر پاؤں رکھنے والے کی بات کو کیونکر برداشت کریں گے۔ واک آؤٹ کرنے والے جین منی کے تعلق سے سب جانتے ہیں کہ ان کی ‘ہمدردیاں’ اور ‘وفاداریاں’ کس کے ساتھ ہیں،وہیں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ آپ کتنا ہی باہوں میں باہیں ڈالیں، ،ہاتھوں میں ہاتھ اٹھاکر یکجہتی کا مظاہرہ کریں ،جب کھل کر نظریاتی گفتگو ہوگی تو واک آؤٹ کے مناظر سامنے آئیں گے۔دل کا میل باہر آجاۓ گا۔
یہاں چند سوال پیدا ہوتے ہیں جو ضروری معلوم ہوتے ہیں یعنی اس معاملے کو دیکھنے کے اور بھی زاویے ہیں مثلاً مین اسٹریم میڈیا نےجس طرح اس ایشو کو لپکا اور چینلوں پر بحثیں کرائ گئیں تو کیا مسلمانوں پر آزمانےکا نیا تیر ہاتھ میں دے دیاگیا؟ دوسرے مولانا نے بات صحیح کہی ہو لیکن جگہ غلط تھی یا ٹائمنگ ٹھیک نہیں تھی؟ شاید اسی لیے محمود مدنی نے اس واقعہ پر افسوس ظاہر کیا اور معافی بھی مانگی،
کیا سناتن بمقابلہ اسلام پر سیاسی جنگ کا میدان ہندوتو بریگیڈ کو فراہم کردیاگیا,جو2024کے لیے حکمراں جماعت کو سوٹ کرتا ہے؟ راہل نے نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھول کر نیا منظر نامہ بنایا تھا مولانا ارشدمدنی کا بیان اس ماحول اور بیانیہ کو نقصان پہنچاۓ گا ؟۔کیا مولانا اپنے بیان پر قائم رہیں گے یا وضاحتی بیان آجاۓ گا؟کیا وہ ہندو اسناد ومتون کے ذریعہ بات رکھتے تو زیادہ موثر اور مضبوط ہوتی؟ اور کیا جمعیتہ کانفرنس کا اصل مقصد یہی پیغام پہنچانا تھا جس میں منتظمین کامیاب رہے۔؟
دراصل 2024کے تناظر کی کسوٹی پر دیکھا جاۓ تو اس کانفرنس پر اس کا سایہ موجود تھا ،اس لیے یہاں جس نے جوکچھ کہا وہ یقیناً سوچ سمجھ کر بولا گیا ہوگا- مولانا ارشد مدنی کے بیان کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔مولانا ارشد مدنی نے اپنے خاص معروف انداز میں وہی باتیں کہیں جو ایک دن پہلے محمود مدنی دوسرے انداز میں کہہ چکے تھے ۔مولانا ارشد مدنی بے باکی سے اپنی بات رکھنے کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے آر ایس ایس سے ڈائیلاگ کا جس کا وہ بھی ایک حصہ ہیں کو سمت دینے کی کوشش کی اور اب یہ بھی سوال ہے کہ آرایس ایس سے مذاکرات جاری رہیں گے یا اس بیانیہ کے بعد کوئی تعطل اور پیچیدگی پیدا ہوگی؟ ؟
۔لوگ یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ مولانا ارشدمدنی کے بیان سے جس پر بحث ہورہی ہے محمود مدنی اور ان کی زیرقیادت جمعیتہ کو سیاسی طور پرکتنا فائدہ ہوگا اور کتنانقصان ،اس لیے کہ مولانا ارشدمدنی کی تقریر جو اصولی طور صحیح تھی موجودہ سیاسی تناظر میں اس کے مضمرات کا اندازہ لگانا سردست مشکل ہے ،لیکن کچھ عرصہ اقتدار اور سیاست کی کشمکش کا نیا دور دیکھنے کو مل سکتا ہے،اس میں کوئی دو راۓ نہیں ۔دیکھنا ہوگا کہ اس موقع پر جبکہ لوک سبھا الیکشن میں چار سو سے بھی کم دن رہ گیے ہیں ایسے بیانات جو بظاہر ضروری لگتے ہیں اور نہیں بھی لگتے وہ کس کے لیے سنجیونی ثابت ہوں گے ؟