بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے بعد اب ملک کے صدر محمد شہاب الدین ایک نئے طوفان کی زد میں ہیں، جن کے خلاف مظاہرے بھی پھوٹ پڑے ہیں۔ بعض مشتعل مظاہرین نے صدارتی محل پر دھاوا بھی بول دیا اور ان کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔یہ نیا بحران ملک کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفیٰ کی درخواست کے حوالے سے ہے کہ آخر انہوں نے اپنا تحریری استعفی کسے اور کب دیا. واضح رہے کہ حسینہ ملک میں پر تشدد مظاہرے کے بعد مستعفی ہو کر پانچ اگست کو بھارت فرار ہو گئی تھیں اور تب سے بھارت میں ہی مقیم ہیں۔صدر محمد شہاب الدین نے حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ انہوں نے سنا ہے کہ شیخ حسینہ نے وزارت عظمٰی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، تاہم ان کے پاس اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے صدر کے اسی بیان کے بعد ان کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے ہیں۔ ڈھاکہ میں اسٹوڈنٹ موومنٹ کے رہنما، جنہوں نے حسینہ مخالف مظاہرے شروع کیے تھے، صدر شہاب الدین کو بھی ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
منگل کے روز سینکڑوں مظاہرین نے بنگ بھون (ایوان صدر) کا محاصرہ کر لیا، جس کے بعد پولیس کو انہیں دور رکھنے کے لیے طاقت کا سہارا لینا پڑا۔ ڈھاکہ کے ایک معروف اخبار ڈیلی اسٹار کی رپورٹ کے مطابق حسنات عبداللہ اور سرجیس عالم، جو اسٹوڈنٹ موومنٹ کے دو سرکردہ رہنما ہیں، نے اس موقع پر مداخلت کی اور مظاہرین کو وہاں سے یہ کہتے ہوئے جانے کے لیے کہا کہ دو دن میں تبدیلی آئےگی.
ڈھاکہ ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق حسنات نے کہا کہ "اگلے صدر کے بارے میں فیصلہ تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ اگر ہم ان کو یہ طے کیے بغیر ہٹا دیتے ہیں کہ اگلا صدر کون ہوگا، تو پڑوسی ممالک ہمارے خلاف سازش کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ صدر کی غیر موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے کسی بھی وقت ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کر سکتے ہیں۔”
صدر نے آخر کیا متنازعہ بات کہی؟
بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفے کی نقل نہیں ہے، جو پانچ اگست کو آناﹰ فاناﹰ بھارت فرار ہو گئی تھیں۔ انہوں نے ایک مقامی میڈيا ادارے سے خاص بات چیت میں کہا کہ "میں نے کئی بار (استعفیٰ نامہ تلاش کرنے کی) کوشش کی لیکن اس میں ناکام رہا۔ شاید انہیں اس کا وقت ہی نہ ملا ہو۔”بنگلہ دیش کے آئین کے سیکشن 57 اے کے مطابق اگر وزیر اعظم صدر کو اپنا استعفی سونپ دے تو وزارت عظمی کا عہدہ خالی ہو جائے گا۔
بہرحال اس معاملے پر اب ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے اور امکان ہے کہ اب وزیر اعظم شیخ حسینہ کے بعد صدر کے خلاف بھی دوبارہ مظاہرے شروع ہو سکتے ہیں