ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سوال: میں ملک سے باہر جاب کرتا ہوں ۔ عید کے موقع پر وطن آیا ہوا تھا ۔ ایک مہینہ بعد واپس جانا ہے۔ پندرہ روز قبل والدِ محترم کا انتقال ہوگیا ۔ والدہ عدّت میں ہیں ۔ میرا ایک جگہ نکاح طے کردیا گیا ہے ۔ تقریبِ ِنکاح میں شرکت کرنے کے لیے والدہ نہیں جاسکتی ہیں ۔ کیا اس صورت میں آن لائن نکاح ہوسکتا ہے؟برائے مہربانی جواب سے نوازیں۔
جواب:نکاح کے ارکان میں سے ایجاب و قبول ہے ۔ نکاح کرنے والے مرد اور عورت میں سے پہلے کا کلام ’ایجاب‘ اور دوسرے کا ’قبول‘ کہلاتا ہے _ دونوں کا ایک مجلس میں ہونا ضروری ہے ۔ اسی طرح صحتِ نکاح کے لیے مجلسِ نکاح میں گواہوں (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) کی موجودگی شرط ہے ۔ نکاح کا یہ روایتی طریقہ ہے ، جس پر آج تک عمل ہوتا آیا ہے ۔
موجودہ دور میں بسااوقات یہ صورتِ حال سامنے آتی ہے کہ لڑکا کسی دوسرے ملک میں بہ سلسلۂ ملازمت مقیم ہے ۔ وہ اپنے وطن ، جہاں اس کا نکاح ہونا ہے ، سفر نہیں کر سکتا ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا آن لائن نکاح ہوجائے ، نکاح کی دستاویزات تیار ہوجائیں ، جن کی بنیاد پر وہ اپنی بیوی کے لیے ویزا حاصل کرلے ، اس کے بعد بیوی سفر کرکے اس کے پاس آجائے ۔ کبھی اندرونِ ملک بھی یہ صورت پیدا ہوتی ہے کہ وبائی مرض ، لاک ڈاؤن یا کسی اور وجہ سے دولہا ، دلہن یا دلہن کے ولی کا یکجا ہونا ممکن نہیں ہوتا تو سوال پیدا ہوا کہ کیا جدید ذرائعِ مواصلات کو اختیار کرکے نکاح کیا جاسکتا ہے؟
یہ عصر حاضر کے جدید مسائل میں سے ہے ۔ علماء نے اس پر غور کیا تو ان کی آراء میں اختلاف ہوا ۔ بعض علما نے آن لائن نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ زوجین کا حقیقی طور پر ایک مجلس میں ہونا ضروری ہے ۔ اگرچہ انٹرنیٹ اور ویڈیو کال کے ذریعہ باہم رابطہ کی صورت میں حکماً اتحادِ مجلس کی شکل پیدا ہوجاتی ہے ، لیکن جدید مواصلاتی ذرائع سے دھوکہ دہی اور عدمِ تحقّق کے امکان کو بالکلیہ خارج نہیں کیا جاسکتا ، جب کہ بعض دیگر علما کہتے ہیں کہ سمعی و بصری ذرائع قابلِ اعتماد ہیں ۔ اگر اطمینان کرلیا جائے کہ دولہا اور دلہن وہی ہیں جن کے درمیان نکاح ہونا ہے اور گواہ ان کی طرف سے ہونے والے ایجاب و قبول کو سن لیں اور توثیق کر دیں تو آن لائن نکاح جائز ہے ۔
بر صغیر ہندو پاک کے علما نے عموماً آن لائن نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے ۔ اس کی دلیل انھوں نے یہ دی ہے کہ جدید مواصلاتی ذرائع میں تلبیس اور اشتباہ کے کافی امکانات رہتے ہیں اور مختلف مناظر کو مصنوعی طریقے سے خلط ملط کرنے کی گنجائش رہتی ہے ۔ دوسرے ، اتحادِ مجلس بھی مفقود رہتا ہے ، جو صحت نکاح کے لیے شرط ہے ۔ ہندوستان میں دار العلوم دیوبند اور پاکستان میں جامعہ علوم اسلامیہ ، بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر دار الافتاء کے اس موضوع پر متعدد فتاویٰ موجود ہیں ۔
ان تمام فتاویٰ میں ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ اگر فریقینِ نکاح (مرد اور عورت) میں سے کوئی کسی آدمی کو اپنا وکیل بنا دے ، جو گواہوں کی موجودگی میں اپنے مؤکل کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کر لے تو نکاح صحیح ہوجائے گا ۔
اس موضوع پر اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کا تیرھواں فقہی اجلاس 13_14؍ اپریل 2001ء میں جامعہ سید احمد شہید ، کٹولی ، ملیح آباد ، لکھنؤ میں منعقد ہوا تھا ۔ اس میں یہ قرارداد منظور کی گئی تھی:
’’نکاح کا معاملہ بہ مقابلۂ عقدِ بیع کے زیادہ نازک ہے ۔ اس میں عبادت کا بھی پہلو ہے اور گواہان کی شرط بھی ہے ، اس لیے انٹر نیٹ ، ویڈیو کانفرنسنگ اور فون پر راست نکاح کا ایجاب و قبول معتبر نہیں ، البتہ ان ذرائعِ ابلاغ پر نکاح کا وکیل بنایا جائے اور وہ گواہان کے سامنے اپنے مؤکل کی طرف سے ایجاب و قبول کرلے تو نکاح درست ہوجائے گا ۔ اس صورت میں یہ بات ضروری ہوگی کہ گواہان وکیل بنانے والے غائب شخص سے واقف ہوں ، یا ایجاب و قبول کے وقت اس کا نام مع ولدیت ذکر کیا جائے ۔‘‘ (نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے، اسلامک فقہ اکیڈمی[انڈیا]، 2016 ، ص 113)
میری رائے میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ حکماً اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہوجاتی ہے ، اس لیے بوقت حاجت آن لائن نکاح جائز ہے ، البتہ بہتر ہے کہ کسی کو نکاح کا وکیل بھی بنا لیا جائے ، تاکہ تمام فقہاء کی رو سے نکاح درست ہوجائے ۔
جہاں تک درج بالا سوال میں مذکور صورت کی بات ہے تو والدہ کی شرکت نکاح کے انعقاد کے لیے ضرورت یا حاجت کے حکم میں نہیں ہے ، لڑکے کے گھر سے صرف لڑکے کی شرکت کافی ہے ۔ اس لیے مذکورہ صورت میں آن لائن نکاح کی صورت اختیار نہیں کرنی چاہیے ۔
[ شائع شدہ : ماہ نامہ زندگی نو، نئی دہلی، جولائی 2021 ]