سوشل میڈیا پر ایک نئی قسم کے نکاح کے حوالے سے بحث چھڑنے کے بعد، مصر کے دار الافتاء نے سرکاری طور پر جاری ایک فتوے میں "نکاح النفحۃ” کو شرعاً حرام اور بنیادی طور پر باطل قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ مذکورہ نکاح میں شریعت کے مقاصد اور نکاح کے احکام کی کھلی خلاف ورزیاں شامل ہیں۔
دار الافتاء کے مطابق "نکاح النفحۃ” بنیادی طور پر مرد اور عورت کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے جس میں پیشگی اور بعد کی شادی کے مہر کی بات کی جاتی ہے، طلاق ہر وقت ممکن ہوتی ہے اور حمل ٹھہر جانے کی صورت میں اولاد کو قبول کیا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ عموماً بغیر ولی، رسمی دستاویز یا اعلان کے کیا جاتا ہے لہذا یہ نکاح شرعی ارکان سے خالی رہ جاتا ہے اور تعلقات کو جائز نکاح کی بجائے حرام بنا دیتا ہے۔دار الافتاء نے اس بات پر زور دیا کہ ولی کی غیر موجودگی، توثیق نہ ہونا، نکاح کو چھپانا اور اولاد کے نسب کا والد کے اختیار پر چھوڑ دینا … یہ تمام امور نکاح کے شرعی مقاصد کے خلاف ہیں۔ اللہ نے نکاح کو محبت، رحمت، سکون، نسب کی حفاظت، حقوق کی پاسداری اور فساد و شبہ سے بچانے کے لیے مشروع کیا ہے۔ اس فتوے میں کہا گیا کہ اس طرح کے معاہدے دراصل اللہ کے احکام کے ساتھ حیلے بازی کے مترادف ہیں اور فساد اور گمراہی کے دروازے کھولتے ہیں۔
دار الافتاء نے مزید کہا کہ اسلام نے نکاح کو انسانی فطرت کے مطابق بنایا، نفسانی خواہشات پر قدغن نہیں لگائی بلکہ انھیں اس انداز میں منظم کیا کہ عزت اور استحکام برقرار رہیں۔ پیغمبر ﷺ کا فرمان بھی اسی اصول کو واضح کرتا ہے :”اے نوجوانوں کے گروہ! جو تم میں سے شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ شادی کر لے، اور جو نہ رکھتا ہو، وہ روزہ رکھے، کیونکہ روزہ اس کے لیے حفاظتی تدبیر ہے۔”مزید بتایا گیا کہ اسلام میں نکاح ایک محفوظ نظام کے تحت کیا جاتا ہے جس میں شرائط اور ارکان کا دھیان رکھا جاتا ہے تاکہ اس کا مقصد حاصل ہو اور صرف خواہش کی تکمیل یا ذمے داری سے بچنے کا ذریعہ نہ بنے۔ شریعت نے واضح طور پر فرق کر دیا کہ جائز نکاح کس طرح ہوتا ہے۔ اس میں اعلان، رضا، توثیق اور ولی کی موجودگی ہوتی ہے۔دار الافتاء نے سختی سے کہا کہ "نکاح النفحۃ” شریعت کے مقاصد کے خلاف ہے اور باطل ہے، خواہ اسے "شرعی نکاح” کہا جائے۔ اسے کسی بھی وجہ سے اختیار کرنا جائز نہیں اور جو نکاح کرنا چاہتا ہے اسے لازمی طور پر شرعی اور قانونی طریقہ کار کے مطابق کرنا چاہیے تاکہ حقوق محفوظ اور عزت برقرار رہے۔
اس سے قبل ایک یونیورسٹی طالب علم نے دار الافتاء کو خط لکھا اور اپنی ایجاد کردہ شرطیں پیش کیں جسے اس نے "نکاح النفحۃ” کا نام دیا۔ طالب علم نے کہا کہ اس میں پیشگی اور بعد کا مہر، اولاد کے نسب کو رد کرنے کی صلح اور طلاق کی سہولت شامل ہے … اور یہ سب ولی، رسمی توثیق یا اعلان کے بغیر ہو گا تاکہ یہ "شرعی نکاح” رہے لیکن محدود مدت کا پابند نہ ہو، جیسا کہ نکاحِ متعہ میں ہوتا ہے۔








