یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ کا کہنا ہے کہ امریکہ سمیت کوئی بھی طاقت اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کو ’روک‘ نہیں سکتی۔جوزف بوریل نے نیو یارک میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’ہم جنگ بندی کے لیے تمام سفارتی دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی نتن یاہو کو روکنے کے قابل نہیں ہے، نہ غزہ میں اور نہ ہی مغربی کنارے میں‘۔
بوریل نے کہا کہ نتن یاہو نے واضح کر دیا ہے کہ اسرائیلی ’اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک حزب اللہ کو تباہ نہیں کر دیا جاتا‘۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ’اگر تباہ ہونے کی تشریح حماس جیسی ہی رہی تو ہم ایک طویل جنگ کی طرف جائیں گے۔‘
انھوں نے امریکہ اور فرانس کے 21 روزہ جنگ بندی کے مطالبے کی حمایت کی۔
امریکیوں کے پاس کسی بھی فریق کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بہت کم داؤ پیچ ہیں۔ وہ قانون کے مطابق حزب اللہ اور حماس سے بات نہیں کر سکتے کیونکہ انھیں دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
چونکہ امریکی انتخابات میں صرف چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں، اس لیے ان کے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے امکانات گذشتہ سال کے مقابلے میں اور بھی کم ہیں۔
گذشتہ اکتوبر میں حماس کے حملوں کے بعد اسرائیلی حکومت اور فوج کے اہم افسران حزب اللہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ لبنان میں اپنے دشمنوں پر فیصلہ کن حملہ کر سکتے ہیں۔
امریکیوں نے انھیں ایسا نہ کرنے پر قائل کیا اور دلیل دی کہ اس سے پورے خطے میں پیدا ہونے والی کشیدگی اسرائیل کے لیے کسی بھی ممکنہ سکیورٹی فائدے کو ختم کر سکتی ہے۔لیکن جس طرح اسرائیل لڑ رہا ہے اس سے ظاہر ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران نتن یاہو نے صدر جو بائیڈن کی خواہشات کو نظر انداز کرنے کی عادت بنا لی۔
بیروت پر حملے میں استعمال ہونے والے طیارے اور بم اسرائیل کو فراہم کرنے کے باوجود صدر بائیڈن اور ان کی ٹیم تماشائی بنی ہوئی تھی۔
مغربی سفارت کار جن میں اسرائیل کے کٹر ترین اتحادی بھی شامل ہیں، معاملات کو پرسکون کرنے کی امید کر رہے تھے اور اسرائیل پر زور دے رہے تھے کہ وہ سفارتی حل کو قبول کرے۔اب وہ صورتحال کو مایوسی اور بے بسی کے احساس سے دیکھ رہے ہوں گے۔