طبی جریدے لینسیٹ میں جمعے کو شائع ہونے والی تحقیق میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اسرائیل حماس جنگ کے پہلے نو ماہ کے دوران غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد غزہ کی وزارت صحت کے ریکارڈ کے مقابلے میں بھی 40 فیصد زیادہ تھی.برطانوی محققین کی قیادت میں کام کرنے والے اس گروپ نے اندازہ لگایا کہ 59 فیصد اموات خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی تھیں.سات اکتوبر 2023 کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل نے حماس کے خلاف فوجی مہم کا آغاز کر دیا تھا۔ تب سے غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک تلخ بحث کا موضوع بن چکی ہے۔تاہم اب ایک نئے مطالعے میں حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار، ایک آن لائن سروے اور سوشل میڈیا پر اموات سے متعلق پوسٹ کی گئی اطلاعات کے تجزیے سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس جنگ کے پہلے نو ماہ کے دوران غزہ میں شدید نوعیت کے زخموں کے باعث 55,298 سے لے کر 78,525 کے درمیان انسانی اموات ہوئیں۔
اس تحقیق میں اموات کی تعداد کا ‘بہترین‘ تخمینہ بھی 64,260 لگایا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وزارت صحت اس وقت تک اموات کی تعداد تقریباً 41 فیصد کم بتا رہی تھی۔ اس ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ یہ تعداد غزہ پٹی کی جنگ سے پہلے کی آبادی کا 2.9 فیصد، یا تقریباً ہر 35 میں سے ایک فرد کے برابر بنتی ہے۔برطانوی محققین کی قیادت میں کام کرنے والے اس گروپ نے اندازہ لگایا کہ 59 فیصد اموات خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی تھیں۔
اس نئے مطالعے میں صرف بڑی اور تکلیف دہ چوٹوں سے ہونے والی اموات کو شامل کیا گیا ہے۔ اس لیے اس میں صحت کی دیکھ بھال یا خوراک کی کمی یا ان ہزاروں لاپتہ افراد کو شامل نہیں کیا گیا، جو ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ تاہم نیوز ایجنسی اے ایف پی آزادانہ طور پر غزہ پٹی میں انسانی ہلاکتوں کی اس تعداد کی تصدیق سے قاصر رہی
جمعرات کو غزہ کی وزارت صحت نے کہا تھا کہ 15 ماہ کی اس جنگ میں کل تک 46,006 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ اسرائیل میں سن 2023 میں حماس کے حملے کے نتیجے میں 1208 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ اسرائیل نے بارہا غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کی ساکھ پر سوال اٹھائے ہیں لیکن یواین نے کہا ہے کہ یہ قابل اعتماد ہیں.
نئی تحقیق کن اعداد و شمار کی بنیاد پر کی گئی؟
محققین نے اس نئے مطالعے میں وہ شماریاتی طریقہ استعمال کیا، جسے ”کیپچر – ری کیپچر‘‘ کہا جاتا ہے اور جو اس سے قبل دنیا بھر میں ہونے والے تنازعات میں ہلاکتوں کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔تجزیے میں تین مختلف فہرستوں کے اعداد و شمار کو استعمال کیا گیا۔
پہلی فہرست غزہ کی وزارت صحت کی فراہم کردہ ہے، جس میں ہسپتالوں یا مردہ خانوں میں لاشوں کی شناخت کی گئی۔دوسری فہرست وزارت صحت کی جانب سے شروع کیے گئے ایک آن لائن سروے کی تھی، جس میں فلسطینیوں نے اپنے رشتہ داروں کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی۔تیسری فہرست سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جیسے کہ ایکس، انسٹاگرام، فیس بک اور واٹس ایپ سے حاصل کی گئی، جہاں مرنے والوں سے متعلق معلومات شیئر کی جاتی تھیں تاکہ ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت کی تصدیق کی جا سکے۔لندن اسکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن میں وبائی امراض کی ماہر زینا جمال الدین نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ”ہم نے تجزیے میں صرف ان لوگوں کو رکھا، جن کی موت کی تصدیق ان کے رشتہ داروں نے یا مردہ خانوں اور ہسپتالوں نے کی تھی۔(سورس:ڈی ڈبلیو)