نئی دہلی :
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کے خط کے جواب میں ایک خط لکھا ، یہ اپنے آپ میں ایک قابل ذکر بات ہے لیکن 23 مارچ کے خط کا جواب دینے میں انہیں ایک ہفتہ لگ گیا ، یہ بھی قابل غور حقیقت ہے۔ اس سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان کے یوم تاسیس کے موقع پر مودی نے عمران کو مبارکبادی۔ مودی کو شاید پتہ ہوگا کہ 23 مارچ 1940 کو مسلم لیگ نے پاکستان کے قیام کی تجویز پاس کی تھی اور آر ایس ایس ،ہندو مہاسبھا اور کانگریس نے اس تجویز کی سخت مذمت کی تھی۔ اب مودی نے اسی دن پر عمران خاں کو مبارکباد دے کر پاکستان کے قیام اور ہند-پاک تقسیم کو باضابطہ طور پرمنظوری دے دی۔
مجھے یقین ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اپنے ایک رضاکی اس پہل کی مخالفت نہیں کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان اب ایک حقیقت ہے ، جسے ہمیں قبول کرنا ہی ہوگا۔ جہاں تک عمران کے خط کا تعلق ہے تو اس کا خیرمقدم کون نہیں کرے گا؟ لیکن پاکستان کے کس وزیر اعظم یا فوجی آمر یت کی جرأت ہے کہ وہ اپنا خط ہندوستان کو بھیجے اور اس میں کشمیر کا ذکر نہ کرے؟عمران کو شاید اسی کشمکش میں ایک ہفتہ لگانا پڑ گیا۔کشمیر جتنا ہند-پاک مسئلہ پاک معاملہ ہے اس سے کہیں زیادہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔کشمیر تو پاکستان کی داخلی سیاست کا ذائقہ ہے۔ اس ذائقہ کے بغیر کسی بھی رہنماکی دال نہیں گھلتی۔ اس لئے عمران کو مورد الزام ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہے ، لیکن عمران کے خط میں کشمیری مرچ کا اثر بہت کم ہوجاتا اگر وہ مودی کو یقین دلاتے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کندھے سے کندھا ملا کر چلیں گے۔
اب امریکی دباؤ میں دونوں ممالک کے مابین کچھ بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے ، یہ اچھی بات ہے لیکن یہ دباؤ تب تک باقی رہے گا جب تک چین سے امریکہ کا تناؤ ہے اور اسے افغانستان سے چھٹکارہنہیں مل رہا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ افغانستان کے معاملے میںہندوستان پیچھے رہ گیا ہے۔ ہماری وزارت خارجہ خود ہی پہل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کے میلوں میں جاکر بین بجاتارہتا ہے۔ جیسا کہ کل تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں کیا تھا۔ اس اچھی بین بچائی لیکن وہ کافی نہیں ہے۔ کچھ کرکے بھی دکھانا چاہئے۔