تحریر:شکیل رشید
مجلس اتحاد المسلمین ( اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر ، رکن پارلیمنٹ،بیرسٹر اسد الدین اویسی کے ’ طریقۂ سیاست ‘ سے مجھے کچھ ’ اختلاف‘ ہو سکتاہے ،لوگ ایسے بھی ہوں گے جنہیں زیادہ’ اختلاف ‘ ہو سکتا ہے ۔ اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جنہیں اویسی کے ’طریقۂ سیاست ‘ سے کلّی یا جزوی ’ اتفاق‘ ہو سکتا ہے ۔یہ ’ اختلاف اور اتفاق‘ کا معاملہ جمہوری ہندوستان کی مثبت قدروں میں سے ایک ہے۔ اور لوگوں کاآئینی حق بھی۔اور جو لوگ بھی جمہوریت اور ملک کے آئین کو مانتے ہیں ان کے لیے ’ اتفاق اور اختلاف ‘ کبھی بھی وجۂ دشمنی نہیں بن سکتا ۔
ہاں جو ملک کے آئین کو ٹھوکر پر رکھتے ہیں اور جن کا جمہوریت پر کوئی یقین نہیں ہے ان کے لیے ’ اتفاق اور اختلاف ‘ کا معاملہ دشمنی کی وجہ بن سکتا ہے ،بلکہ وجہ بن گیا ہے۔ اویسی پر گولی باری کرنے والے وہی لوگ تھے جو جمہوریت اور آئین کے دشمن ہیں ،اور ان کے بھی دشمن بن جاتے ہیں جو جمہوریت اور آئین کی بات کرتا یا کرتے ہیں ۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ اس سوال کا جواب ہر ایک کو پتہ ہے ،لیکن جواب پر ایک بار پھر نظر ڈال لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس جمہوری بھارت کو ،یہاں کے اس آئین کو ،جس کے معمار ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر ہیں ،مٹا کر اس کی جگہ ’ منوسمرتی ‘ یعنی منوکے قانون کو لاگو کرنا چاہتے ہیں جو ،ذات پات کی تفریق کو قانونی جواز فراہم کرنے والا قانون ہے ۔ ایک ایسا قانون جو اس ملک میں اقلیتوں کو ،جن میں مسلمان بھی شامل ہیں ،عیسائی بھی اور یہودی و سکھ و دیگر بھی ، نچلے سے بھی نچلے درجے کا شہری بنا کر رکھنے کو درست قرار دیتا ہے ،اور جس کے تحت دلت اور نچلی ذاتیں بدترین مخلوق ٹھہرائی گئی ہیں ۔ منو کے قانون کو کون لوگ لاگو کرنا چاہتے ہیں ؟
اس سوال کے جواب سے بھی لوگ واقف ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اس ملک کو ’ ہندو راشٹر ‘ میں بدلنے کے نعرے لگا رہے ہیں ۔ ایسا نعرہ لگانا ہی ایک جرم ہے ،اسے لاگو کرنے کے لیے نفرت کی مہم چھیڑنا اور کسی کو قتل کرنے کے لیے اس پر گولی چلانا تو اور بھی بڑا جرم ہے ۔مگر یہ جرائم اب معمول بن چکے ہیں ۔ ان جرائم میں ملوث جو لوگ ہیں انہیں یرقانی بھی کہا جاتا ہے ۔ ان کا ایک نام ’ ہندوتوادی ‘ بھی ہے بلکہ اس نام پر یہ بڑا ’گَرو‘ کرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں گرفتاری کا کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ ان دنوں ، ان کے’’ سیّاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا ‘‘کا والا معاملہ ہے ۔
اب یہی دیکھ لیں کہ اویسی پر گولیاں چلانے والے دو لوگ گرفتار ہوئے ہیں ،سچن اور شبھم ، مگر ان پر ہنوز یو اے پی اے کے تحت معاملہ نہیں درج کیا گیا ہے ،جبکہ صدیق کپّن جیسے مظلوم صحافی اور عمر خالد جیسے اکٹی وسٹ پر گرفتاری کے فوراً بعد یو اے پی اے لگادیا گیا تھا ۔یہ سچن اور شبھم دھرم سنسد کی زہریلی تقریروں سے متاثر تھے اس لیے اویسی پر گولی باری کی ،لیکن دھرم سنسد اب بھی ہو رہے ہیں ،اشتعال انگیزی جاری ہے ،کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے ۔ ایک تازہ معاملہ لے لیں ، گجرات کے ایک فرقہ وارانہ معاملہ کے ملزمین کی گرفتاری کے بعد مولاناقمر غنی عثمانی کو اس لیے گجرات اے ٹی ایس نے دہلی جاکر گرفتار کیا کہ ملزمین ان کی تقریر سے متاثر تھے ،لیکن دھرم سنسد کے سنت اور مہنت سب آرام سے گھوم رہے ہیں حا لانکہ اویسی پر گولی باری کرنے والے قبول کر چکے ہیں کہ وہ ان سنتوں مہنتوں کی تقریروں سے متاثر تھے ۔
یہ وہ تعصب ہے جس کی تعلیم منو کا قانون دیتا ہے۔ اویسی بی جے پی کے ایجنٹ ہیں یا نہیں ہیں ،اس پر کوئی بحث نہیں کرنی ہے، کیونکہ اب یہ سچ سامنے آگیا ہے کہ گولی چلانے والے شدید قسم کی نفرت میں مبتلا تھے اور وہ باقاعدہ اویسی کی آمد و رفت پر نظر رکھ رہے تھے اور گولی باری سے قبل انہوں نے اویسی کی تقریروں کو شیئر کر کے ان کے خلاف مہم چھیڑی تھی ۔یہ حملہ منصوبہ بند تھا ۔ بی جے پی الیکشن جیتنے کے لیے جو سر پیر مار رہی ہے اس حملے کو اس تناظر میں دیکھا جانا چاہئے ۔ ایک بہت اچھی بات یہ ہوئی کہ اویسی نے زیڈ درجہ کی سیکوریٹی لینے سے انکار کر دیا ہے ،اور وہ پارلیمنٹ کے اندر یوگی آدتیہ ناتھ ، وزیراعلیٰ اترپردیش کی طرح سسک سسک کر روئے بھی نہیں ۔ رونے کا کام تو بزدلوں اور ظالموں کا ہے۔ اویسی کی سیاست سے کچھ ’ اختلاف ‘ کے باوجود میں ان کی سلامتی کے لیے دعاگو ہوں،اللہ انہیں محفوظ رکھے اور وہ اپنی سیاست کرتے رہیں کہ یہ آئینی حق ہے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)