امریکی اور عرب ثالث اس وقت غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں حماس کے ایک عہدیدار نے اتوار کو رائٹرز کو بتایا کہ حماس نے اسرائیل کی طرف سے پیش کی گئی 34 یرغمالیوں کی ایک فہرست پر اتفاق کرلیا ہے تاکہ ممکنہ جنگ بندی معاہدے کے حصے کے طور پر ان یر غمالیوں کا فلسطینی قیدیوں کے بدلے تبادلہ کیا جا سکے۔
حماس کے عہدیدار نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بھی بتایا کہ کوئی بھی معاہدہ غزہ سے اسرائیلی انخلا اور مستقل جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچنے سے مشروط ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی مذاکراتی وفد کے ذرائع نے بتایا ہے کہ غزہ معاہدے کے حوالے سے تمام بقایا نکات کے حل موجود ہیں۔ سیاسی سطح سے فیصلے کا انتظار ہے۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ معاہدہ عبوری ہوگا اور تقریباً دو سے تین ماہ تک جاری رہے گا۔
اسرائیلی وفد کے ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ اس معاہدے میں حماس کے رہنماؤں کو اندرون اور بیرون ملک نشانہ بنانے سے استثنیٰ دینے کی شرط رکھی گئی ہے جس کے بدلے میں وہ رہنما غزہ کی پٹی چھوڑ دیں گے۔ اس کے بعد عرب اور بیرونی ممالک کے ساتھ مل کر ایک آزاد فلسطینی ادارے کو اقتدار سونپ دیا جائے گا۔اسرائیلی ذرائع نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی افواج کو اسی طرح تعینات کیا جا سکتا ہے جیسا کہ جنوبی لبنان میں یونی فِل تعینات ہے۔ ذرائع نے عندیہ دیا کہ امریکہ ممکنہ معاہدے کی تمام شقوں کے ساتھ اس کے نفاذ کی سرپرستی کرے گا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی تک پہنچنے اور 20 جنوری کو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے قبل غزہ میں زیر حراست اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے لیے کوششوں کی تجدید کی گئی۔اسرائیل نے جمعہ کے روز قطر اور مصر کی ثالثی میں مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے مذاکرات کاروں کو دوحہ بھیجا تھا۔ امریکی صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے حماس پر زور دیا کہ وہ ایک معاہدے پر رضامند ہوجائے۔ حماس نے کہا ہے کہ وہ جلد از جلد کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے پرعزم ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ دونوں فریق حتمی معاہدہ کے کتنے قریب پہنچ چکے ہیں۔یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب فلسطینی طبی ماہرین نے کہا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں اتوار کو غزہ کی پٹی میں دو الگ الگ حملوں میں کم از کم 9 فلسطینی ہلاک ہوگئے ہیں۔ اس ہفتے کے آخر میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 97 ہو گئ