ماسکو :(ایجنسی)
کیا یوکرین روس جنگ ایٹمی جنگ میں بدل جائے گی؟ یہ سوال آج اس وقت پیدا ہوا جب روسی صدر پیوتن نے اپنے تمام دفاعی سربراہان کو روس کی نیوکلیئر ڈیٹرنس فورسز کو ہائی الرٹ پر رکھنے کا حکم دیا۔ پیوتن نے مغربی ممالک پر الزام لگایا کہ وہ ان کے ملک کے خلاف غیر دوستانہ اقدامات کر رہے ہیں۔یوکرین پر حملے پر بین الاقوامی تناؤ پہلے ہی بڑھ رہا ہے اور پیوتن کی جانب سے آج کا حکم مزید بڑھائے گا۔ یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب کئی مغربی ممالک نے یوکرین کو فوجی امداد بھیجی۔
ماسکو کے پاس دنیا کا دوسرا سب سے بڑا جوہری ہتھیاروں کا مرکز اور بیلسٹک میزائلوں کا ایک بڑا ذخیرہ ہے۔ روس کے ایٹمی ہتھیار اس کی ڈیٹرنس فورس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پیوتن نے اتوار کو ایک ٹیلی ویژن خطاب میں کہا، ’’میں وزیر دفاع اور روسی مسلح افواج کے چیف آف دی جنرل اسٹاف کو حکم دیتا ہوں کہ وہ روسی فوج کی نیوکلیئر فورسز کو جنگی خدمات کے خصوصی موڈ میں ڈالیں۔‘‘ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مغربی ممالک نہ صرف معاشی میدان میں ہمارے ساتھ غیر دوستانہ سلوک کر رہے ہیں بلکہ ہمارے ملک پر غیر قانونی پابندیاں بھی لگا رہے ہیں۔ نیٹو کے بڑے ممالک کے اعلیٰ حکام بھی ہمارے ملک کے خلاف جارحانہ بیانات دے رہے ہیں۔
روسی صدر نے جمعرات کو یوکرین پر حملے کا حکم دیا۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ تمام مغربی ممالک اس کے خلاف ہو گئے۔ روسی افواج یوکرین میں برسرپیکار ہیں لیکن انہیں یوکرین کے فوجیوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ ماسکو کو ایسی مزاحمت کی توقع نہیں تھی۔ یوکرائنی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ درجنوں روسی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔