نئی دہلی :
ملک میں جاری اسمبلی انتخابات کے ہنگاموں کے درمیان فرانس سے آئی ایک خبر نے بی جے پی کے لئے مشکل کھڑی کردی ہے۔ بھارت میں حزب اختلاف کے تمام گھیرے بندی کے باوجود رافیل ڈیل پر سپریم کورٹ سے ملی گرین سگنل بھی اس خبر سےلال ہوسکتی ہے۔ در اصل فرانس کی نیوز ویب سائٹ ’میڈیا پارٹ‘ نے رافیل پیپرز کی اشاعت کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ رافیل ڈیل میں بہت زیادہ بدعنوانی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس ڈیل کے لئے دلال کو دس لاکھ یورو دئے گئے اور حکومت نے اس بدعنوانی کو دفن کردیا۔
رپورٹ کے مطابق 2016 میں معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد فرانس کی انسداد بدعنوانی ایجنسی اے ایف اے کو اس کی جانکاری ہوئی۔ اے ایف اے کو پتہ چلا کہ رافیل بنانے والی کمپنی ڈسالٹ ایوی ایشن نے ایک بیچولےکو 10 لاکھ یورو دینے پر راضی ہوئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2018 میں فرانس کی پبلک پراسیکیوشن ایجنسی پی این ایف کو رافیل سودے میں گڑبڑی کے لیے الرٹ ملا تھا۔ اسی وقت ڈسالٹ ایوی ایشن کا آڈٹ بھی ہوا۔ 2017 کے اکاؤنٹس کی جانچ کے دوران ‘’کلائنٹ کو گفٹ‘ کے نام پر 5,08,925 یورو کے اخراجات کا پتہ چلا ، جس کی وجہ سے یہ شک پیدا ہوا۔
جب اس پر وضاحت مانگی گئی تو ڈسالٹ ایوی ایشن نے 30 مارچ 2017 ء کا ایک بل اے ایف اے کو فراہم کیا جو ڈیفنس سولیشن آف انڈیا نے دیا تھا۔ یہ بل رافیل جنگی طیارہ کے 50 ماڈل بنانے کے لیے دئے گئے آرڈر کا نصف کام کے لئے تھا۔ اس کام کے لیے فی ماڈل 20,357یورو کے حساب سے بل دیا گیا، ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈسالٹ اپنے ہی طیاروں کا ماڈل کسی اور سے کیوں بنوائے گی اور وہ اس کے لیے اتنی رقم کیوں دی گی؟
ظاہر ہے تمام تر کوششوں کے باوجود رافیل کا جناح بار بار سامنے آہی جاتا ہے۔گزشتہ عام انتخابات میں کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نےاسے بڑا مدعہ بناتے ہوئے ’چوکیدار چور ہے ‘، جیسا سخت نعرہ بھی دیا تھا ۔ ارون شوری اور یشونت سنہا جیسے بی جے پی کے پرانے رہنماؤں نے بھی تمام دستاویزی ثبوت دے کر رافیل دی سالٹ میں بدعنوانی کو لےکر مودی کو گھیرا تھا ، لیکن پلوامہ میں ہوئےحملے نے بدعنوانی کے معاملے کو پیچھے کرد یا۔ مودی دوبارہ پی ایم بن گئے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ ’رافیل پیپرز‘ کی اشاعت کا کیا اثر پڑے گا۔ ظاہر ہے یہ رپورٹ مودی سرکار پر راہل گاندھی کے عائد الزامات کی تصدیق کرتی ہے ، لیکن کیا فرانسیسی حکومت اس کی جانچ کو لے کرسنجیدہ ہوگی۔ خاص طور پر جب فرانس کے سابق صدر فرانسوا اولاند نے شروع میں ہی کہا تھا کہ انل امبانی کو اس ڈیل میں شامل کرنے کے لیے حکومت ہند نے براہ راست دباؤ ڈالا تھا۔
بی جے پی کے لئے انتخابات کے وسط میں آنے والی یہ خبر پریشان کن ہے۔ اسے ان الزامات کا جواب پہلے ہی دینا پڑے گا۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ صرف کانگریس پارٹی کے ذریعہ عائد کردہ الزام نہیں ہے۔ بہت سارے دستاویزات فرانسیسی حکومت کے سسٹم میں اس ڈیل میں ہوئی بدعنوانی کی گواہی دیے رہے ہیں۔