ہلدوانی: شہر کے بازاروں میں ان دنوں ایک الگ ہی ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دکانوں کے باہر لگے بورڈ اب شناخت کا مرکز بن چکے ہیں۔ کچھ دکاندار خوف کے مارے اپنے بورڈ تبدیل کر رہے ہیں جبکہ کچھ اپنی دکانیں بند کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ کچھ ہندو تنظیموں کی طرف سے دکانداروں کی مذہبی شناخت پوچھنے، کی مہم ہے۔۔
رائل بلیٹن کے مطابق بی جے پی یووا مورچہ کے وزیر وپن پانڈے خود دکانوں کا دورہ کر رہے ہیں اور لوگوں سے کہہ رہے ہیں، ’’یہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا معاملہ نہیں ہے، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دکاندار کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘ ان کے مطابق، یہ مہم اس لیے اہم ہے کیونکہ "ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ جو چیزیں ہم بھگوان کو پیش کر رہے ہیں وہ مکمل طور پر خالص ہیں یا نہیں۔”تاہم انتظامیہ کی جانب سے اس پوری مہم کے حوالے سے کوئی باضابطہ حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم زمینی صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماحول کشیدہ ہوتا جا رہا
تاجروں کا کہنا ہے کہ پہلگام حملے کے بعد اس رجحان میں تیزی آئی ہے۔ اب کئی ہندو تنظیمیں دکانوں کے کیو آر کوڈز کو اسکین کرکے مالکان کی شناخت معلوم کر رہی ہیں۔ اس کے بعد دکان کا نام تبدیل کرنے اور بورڈ پر مذہبی شناخت لکھنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کچھ دکانداروں نے اپنے نام کے بورڈ ہٹا دیے ہیں اور کچھ نے اپنی دکانیں بند کر دی ہیں۔،نبی احمد نامی تاجر کے ایک دوست نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں لکھا تھا، "آج شام 4 بجے سائی سویٹس کی دکان کے باہر میٹنگ ہے، دکان کا نام بدل کر مسلم شناخت کے ساتھ نام رکھ دیں، تاکہ شناخت واضح ہو۔” نبی صاحب تھانے میں شکایت درج کرانے کا سوچ رہے تھے کہ ایس ایچ او خود دکان پر پہنچے۔ انہوں نے لائسنس مانگا۔ دکان کے دونوں لائسنسوں پر ’سائی مٹھائی‘ لکھا ہوا تھا۔ میونسپل کارپوریشن کی پرچیاں بھی دکان کے نام پر تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک اس پورے معاملے میں کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی انتظامیہ کی طرف سے کوئی واضح ہدایات آئی ہیں۔ لیکن شناخت کی سیاست جس طرح دکانوں تک پہنچی ہے اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ بازار اب صرف کاروبار کا مرکز نہیں رہا بلکہ یہ اب سماجی شناخت کی جنگ میں ایک نیا محاذ بنتا جا رہا ہے۔رائل بلیٹن کے ان پٹ کے ساتھ