سیدھی بات:حامدمیر
امام ابن تیمیہ جو سچ سمجھتے تھے اسے بیان کرنے سے خوف نہیں کھاتے تھے۔ حکمران اُن سے ناراض رہتے تھے۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور آپ کا جنازہ سرکار کی جیل سے نکلا۔ علماء کو انبیا کا وارث کہا جاتاہے۔ علماء حق دنیاوی عہدوں کے پیچھے نہیں بھاگتے بلکہ حکمرانوں سے دور رہتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کو عباسی خلیفہ ابوجعفر عبداللہ بن محمد المنصور نے قاضی (چیف جسٹس) کا عہدہ پیش کیا۔ امام ابوحنیفہ نے خلیفہ کے سامنے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے آپ کو اس عہدے کے قابل نہیں سمجھتا۔ انکار سن کر خلیفہ نے غصے میں کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ امام ابوحنیفہ کا جواب تھا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو پھر واقعی اس عہدے کیلئے نااہل ہوں۔ وقت کے متکبر حکمران کے سامنے انکار کرنے والے امام ابوحنیفہ کو جیل بھیج دیا گیا اور ان کے شاگرد ابویوسف کو قاضی بنا دیا گیا۔ جیل میں امام ابوحنیفہ کو کوڑے مارے جاتے تھے کہ وہ خلیفہ کا حکم تسلیم کرلیں لیکن امام ابوحنیفہ نے خلیفہ کی خواہش کے سامنے سر جھکانے سے انکارکر دیا۔ روایات کے مطابق ان کا جنازہ بھی جیل سے اٹھا۔ امام مالک بن انس نے بھی منصور کی اطاعت سے انکار کیا۔ انہیں گرفتار کرکے مدینہ میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ امام جعفر صادق نے بھی منصور کی زبردستی اطاعت سے انکار کیا تو انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا۔ امام احمد بن حنبل نے خلیفہ المامون کے درباری علماء کے کچھ فرمائشی فتوئوں کومسترد کیا تو حکمرانِ وقت نے اپنے ہاتھ سے ان کا سرقلم کرنے کافیصلہ کیا۔ اس سے قبل کہ المامون ان کاسرقلم کرتاحکمرانِ وقت کی موت واقع ہوگئی۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا بھائی معتصم باللہ خلیفہ بن گیا۔ اس نے اپنے دربار میں امام احمد بن حنبل کے کپڑے اتروائے اور اپنے سامنے انہیں کوڑے لگوائے۔ امام احمد بن حنبل روزے سے تھے، کوڑے کھاتے کھاتے بے ہوش گئے لیکن حکمران ِوقت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا۔ بے ہوشی کی حالت میں انہیں رہا کردیا گیا۔ انہیں اسحاق بن ابراہیم کے گھر لایا گیا۔ ہوش میں آئے تو کہا گیا آپ کے جسم سے خون بہہ رہا ہے۔ روزہ افطار کرلیں۔ امام احمد بن حنبل نے جواب دیا کہ حضرت عمرؓنے بھی زخمی حالت میں نماز ادا کی تھی۔ انہوںنے نماز ظہر ادا کی۔ شام کو روزہ افطار کیا اور کوڑے مارنے والے جلادوں کو معاف کردیا۔ انہوںنے معاف نہیں کیا تو ان درباری علماء کو معاف نہیں کیا جنہوں نے حکمران وقت کی خوشنودی کیلئے فرمائشی فتوے دے کر شریعت کی خلاف ورزی کی۔
امام شافعی سے امام موسیٰ کاظم تک اور مجدد الف ثانی سے شاہ ولی اللہ تک کئی علماء کے بارے میں ایسے واقعات بیان کئے جا سکتے ہیں جب انہوں نے حکمرانِ وقت کی خوشامد سے انکا رکیا۔ ان سب علماء اور صوفیوں کے کردار میں ایک مشہور حدیث نبویؐ کی جھلک نظر آتی ہے جس کےمطابق جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے۔ اپنی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہر دور میں ایسے علماء کی بہتات نظر آئے گی جو فرمائشی فتوئوں کے ذریعے اہل اختیار سے دنیاوی عہدے لے کر عوام کی نظروں میں گر جاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ایسے علماء کے بارے میں کہاتھا۔
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق