**فکر ونظر: سید سعادت اللہ حسینی
(امیر جماعت اسلامی ہند )
آر ایس ایس کے اس صد سالہ سفر میں تحریکوں کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اسباق بھی ہیں اور تنبیہات warnings بھی ہیں۔ یہ موضوع تفصیلی تجزیہ چاہتا ہے۔
پہلا سبق، ہر طرح کے جذبات اور اکساہٹوںimpulsesپر قابو رکھ کر استقلال کے ساتھ طویل جدوجہد کا سبق ہے۔ قرآن اسے صبر کہتا ہے اور قوموں کی ترقی کا اہم ترین راز قرار دیتا ہے۔ چکا چوند سے دور رہ کرخاموش کا م کرتے رہنے کا گر، الیکشن پر الیکشن ہارتے رہنااور اس کے باوجود ہر الیکشن میں جیت کےنئے یقین کے ساتھ جان توڑ محنت کرنے کا حوصلہ، شدیدمخالفتوں کے طوفان میں بھی شاندار مستقبل کے یقین کی شمع کو دلوں میں روشن رکھنے کا جوہر،تسلسل واستقلال کا وصف، ۔۔ان کی ایک خوبی بیان کی جاتی ہے، discipline of silence and invisibility یعنی جہاں ضرورت ہو وہاں خود کو خاموش رکھنے کا ہنر اور جہاں تقاضہ ہو وہاں نظر آئے بغیر ، کریڈٹ کی فکر کیے بغیر ،پوشیدہ رہ کر خدمت انجام دینے کا کمال۔۔
دوسرا سبق، نظریاتی تحریکوں کے لیے سیاسی اثر و رسوخ ٹھوس سماجی و نظریاتی اثرات سے جڑا ہوا ہے۔ وہ عام سیاسی تحریکوں کی طرح پہلے دن سے سیاسی نعرے لگاکراور دوڑ بھاگ کرکے سیاسی قوت حاصل نہیں کرسکتے۔ ان کی سیاسی قوت کا گہرا تعلق، اُن سماجی و تہذیبی عوامل سے ہے جن کا فروغ طویل صبر آزما جدوجہد چاہتا ہے اوربعض دفعہ راست سیاسی عمل سے وقتیلاتعلقی کا بھی تقاضہ کرتا ہے۔
تیسرا سبق یہ ہے کہ افکار وخیالات اسی وقت ٹھوس سماجی تبدیلی کا ذریعہ بنتے ہیں جب وہ اداروںinstitutions کا روپ اختیار کرتےہیں اور ادارے اسی وقت موثر ہوتے ہیں جب وہ دو شرطیں پوری کریں، ایک متبادل تمدن کے خواب دکھا ئیں (موجود لکیروں کو پیٹنے والے ادارے کچھ خدمت تو کرلے جاتے ہیں ،سماج کو نہیں بدلتے) اور دو ایک ایکو سسٹم ecosystemتشکیل دے ڈالیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں ادارے ہوں، ان کا باہمی تعلق و تال میل ہو اور وہ سب مل کر ایک متبادل تمدن کی جھلک دکھائیں۔
چوتھا سبق، تربیت یافتہ اور پابند ڈسپلن کیڈر کی تیاری کی اہمیت کا سبق ہے۔ بھیڑ crowdکا پیچھا کرنے سے تحریکیں پروان نہیں چڑھتیں۔ بھیڑ جمع کرنے کامرحلہ بہت بعد میں آتا ہے۔پہلا مرحلہ تربیت یافتہ کیڈر، اعلیٰ ترین صلاحیتوں کی پرورش، صلاحیتوں کو بے نفسی، اخلاص اور ڈسپلن کے ساتھ جوڑنا، ان کاموں کا ہے۔ان اہداف کے بغیر بھیڑ ساتھ ہوبھی جائے تو وہ مفید نہیں ہوتی۔
پانچواں سبق، قیادت چکاچوند کانام نہیں ہے۔ بڑی بڑی تصویروں، نعروں اورہنگاموں اور دھواں دھار تقریروں کا نام نہیں ہے۔خاندانی جاہ و حشمت اور موروثی کشش کا نام بھی نہیں ہے۔ قیادت کی پہلی اساس ، اخلاص و ایثار ہے اور دوسری اساس ذہانت و طباعی ہے۔ صرف جان و مال اور مفادات کا ایثار نہیں ، حسب ضرورت کرسی کا ایثار، ناموری اور شان و شوکت کی قربانی، کیریر کی قربانی، پیچھے ہٹ جانا، لائم لائٹ سے دور بھی رہ پانا، لوگوں کو ناراض کرنے والی بات بھی کہہ پانا،یہ سب اخلاص و ایثار کے مختلف مظاہر ہیں۔ ذہانت و طباعی کا مطلب،ٹھوس علم اور فکر و نظریے کی گہری بصیرت، حالات کی عمیق سمجھ، صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرپانا، مواقع کی تلاش اور صحیح وقت پر موقعے کا بروقت استعمال،نئے راستوں کی کھوج اور اختراعی حل کی جستجو۔
تنبیہات کی بھی ایک فہرست ہے،میں صرف ایک وارننگ پر اکتفا کروں گا۔ یہ کہ تحریکوں کو صبر، انتظار اور سیلف کنٹرول کی جنتی ضرورت آزمائشوں کے مرحلے میں ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ ضرورت کامیابیوں کے مرحلے میں ہوتی ہے۔ کام یابی کے مرحلے میں عجلت، اور ہمہ گیر اقتدار کی جلد بازی میں اصولوں پر سمجھوتا،ان کے برسہا برس کے صبر کے ثمرات کو جلد لمحوں کی عیاشی تک محدود کرسکتا ہے۔ آخری مرحلے کی جلد بازی ہی ہے جو سنگھ کے زوال کا سبب بنے گی۔سنگھ کے زوال کا ایک بڑا سبب ان کے نظریے کا کھوکھلا پن، ظلم و زیادتی کی روش ، غرور و تکبر جیسے اخلاقی رذائل بھی ہیں۔ یہ بھی ایک بڑی وارننگ ہے کہ تحریکیں محض اچھی حکمت عملی سے یا اپنے وابستگان کی بعض اچھی خصوصیات سے پائیدار ترقی حاصل نہیں کرسکتیں، ان کے نظریات، مقاصداور اصولوں کا مبنی بر حق اور مبنی بر عدل ہونا بھی ضروری ہے۔ ان اسباق اور تنبیہات میں خاص طور پر مسلمانوں کی تحریکوں اور اسلامی تحریکوں کے لیے ضروری اشارے موجود ہیں۔
انتہاپسند تحریکیں ہمیشہ اجتماعی نرگسیت، اجتماعی حسد اور تاریخی انتقام جیسی منفی نفسیات پر استوار ہوتی ہیں۔ یہ تحریکیں کسی خاص دور میں سازگار حالات کی بدولت اچانک طاقت حاصل کرلیتی ہیں اور سماج میں جنون اور ہسٹریا کی کیفیت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ مگر ایسا جنون کبھی پائیدار نہیں ہوتا۔ اس کی عمر کو بڑھاسکتا ہے تو صرف اس کے مقابلے میں پیدا ہونے والا جوابی جنون بڑھا سکتا ہے۔ (ہفت روزہ دعوت میں شائع انٹرویو سے ماخوذ)











