ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
’’آپ ہمیں اس وادی میں کس کے بھروسے چھوڑ کر جارہے ہیں؟ یہاں نہ آدم ہے نہ آدم زاد ، نہ سبزہ ہے نہ پانی ، نہ کھانے پینے کا کوئی اور سامان ، یہاں ہم کیسے رہیں گے؟‘‘
بالآخر خاتون کا پیمانۂ صبر لب ریز ہوگیا تو اس کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے۔
اس کا شوہر اسے اپنے ساتھ اور بچے کو کندھے پر بٹھاکر لایا تھا _ وہ ساتھ میں چل پڑی تھی _ اس نے یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی تھی کہ کہاں کا ارادہ ہے؟ اس کے شوہر نے ایک بیگ اپنے ساتھ لیا ، اس میں کچھ کھجوریں رکھیں ، پانی کا ایک مشکیزہ لیا ، اس میں پانی بھرا اور چل دیا _ وہ بھی پیچھے پیچھے چل پڑی _ اسے اطمینان تھا کہ اس کا شوہر اس کے ساتھ ہے _ وہ جہاں بھی لے جائے گا چلی جائے گی ، جہاں ٹھہرے گا ٹھہر جائے گی _ اسے کچھ سوچنے اور فکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی _ وہ چلتے رہے ، چلتے رہے ، یہاں تک کہ پہاڑیوں کے دامن میں اس جگہ جا پہنچے _ دور دور تک لق و دق صحرا ، پانی سبزہ کا کوئی نام و نشان نہیں _ _۔
لیکن یہ کیا؟ شوہر رکا ، بچے کو کندھے سے اتارا ، سامان نیچے رکھا ، اس کے بعد واپس جانے لگا _ اب تو خاتون کا پریشان ہونا فطری تھا ’’ کیا یہ مجھے یہاں تنہا چھوڑ کر چلے جائیں گے؟ میں یہاں اکیلی کیسے رہوں گی؟ تنہا بچے کی دیکھ بھال کیسے کروں گی؟ یہ کھجوریں اور یہ پانی ختم ہوگیا تو مزید کہاں سے آئے گا؟‘‘ ان تفکرات نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ، جو اس کی زبان سے ان الفاظ میں ظاہر ہوئے _۔
شوہر خاموش رہا تو اس کی پریشانی اور بڑھ گئی ’’ یہ کچھ جواب کیوں نہیں دیتے؟ یہ مجھ سے نظریں کیوں چُرا رہے ہیں؟ کیا یہ مجھ سے کچھ چُھپا رہے ہیں؟‘‘ان تفکّرات نے اسے دوبارہ سوال کرنے پر مجبور کردیا مگر دوسری طرف سے پھر خاموشی رہی _ اس نے تیسری مرتبہ اپنا سوال دہرایا _ اس کے اندازِ سوال سے اس کی بے چینی اور الجھن صاف عیاں تھی ، لیکن دوسری طرف ایک چُپ ہزار چُپ _ وہ کہاں ہار ماننے والی تھی؟ اس نے وہی سوال دوسرے انداز سے کردیا :
’’ کیا آپ کو اللہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے؟‘‘
شوہر کے لب ہلے _ اس نے بس اتنا کہا :’ ہاں‘
یہ سننا تھا کہ خاتون کی بے چینی کافور ہوگئی ، اس کے اضطراب کا تلاطم پُر سکون ہوگیا _ جب اللہ نے اس کا حکم دیا ہے اور میرے شوہر اس حکم کی تعمیل کررہے ہیں تو ان کا کیا دوش؟ جب اللہ نے اس کا حکم دیا ہے تو ضرور اس کے پیچھے کوئی مصلحت ہے ، ضرور اللہ تعالیٰ کا کوئی منصوبہ ہے ، جس کی تکمیل کے لیے اس نے ہمیں واسطہ بنایا ہے ، پھر کیسا گلہ شکوہ؟ کیسی الجھن؟ کیسی پریشانی؟
’پھر تو اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا _‘
خاتون نے زور سے یہ جملہ ادا کیا ، اتنی زور سے کہ اس کا شوہر بھی سُن لے _
شوہر واپس روانہ ہوگیا _ خاتون اسے اُس وقت تک ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی جب تک وہ اس کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوگیا _ پھر وہ پلٹی _ بچے پر نظر ڈالی _ اس کی ممتا امڈ آئی _ بچے کا ہُمکنا اسے بہت بھلا لگا رہا تھا _ وہ اس کی بَلائیں لینے لگیں _۔
ایک دن گزرا ، دو دن گزرے _ دھیرے دھیرے بیگ خالی ہوگیا ، کھجوریں ختم ہوگئیں ، مشکیزہ بھی خالی ہوگیا _ اب خاتون کی پریشانی پھر لوٹ آئی _ وہ کیا کھائے؟ کیا پیے؟ وہ اپنی بھوک پیاس تو کچھ اور وقت برداشت کرسکتی تھی ، لیکن چھوٹے معصوم بچے کا رونا ، بلکنا، چیخنا چِلّانا ، بھوک پیاس کا اظہار کرنا اس کے لیے کیسے قابلِ برداشت ہوگا؟ ارے ، بچہ رونے لگا _ وہ بہت پیاسا ہے _ اب میں پانی کہاں سے لاؤں؟ اس کا رونا بلکنا مجھ سے دیکھا نہیں جا رہا ہے _ وہ میرے سامنے یوں تڑپ تڑپ کر جان دے دے اور میں اس کے پاس بیٹھ کر بے بسی سے بس اسے دیکھتی رہوں ، یہ تو نہیں ہوسکتا _ کچھ کرنا چاہیے _۔
خاتون دوڑ کر قریب کی پہاڑی پر چڑھ گئی _ ’’ دیکھوں ، ممکن ہے ، دور کہیں کوئی قافلہ آتا دکھائی دے ، کسی ایک آدمی پر ہی نگاہ پڑجائے ، کہیں دور کچھ پرندے ہی نظر آجائیں ، جن سے کہیں پانی ہونے کا سراغ لگے ‘‘ لیکن صحرا کا مہیب سنّاٹا اس کا منھ چِڑھا رہا تھا وہ گھور گھور کر ، دور تک اور دیر تک دیکھتی رہی ، لیکن کہیں کچھ نظر نہ آیا _۔
وہ جو دوسری پہاڑی ہے _ اُدھر دیکھ لوں _ ہوسکتا ہے ، اُدھر کوئی نظر آجائے _ یہ خیال آتے ہی خاتون نے اپنے پائیچے چڑھائے اور دوسری پہاڑی کی طرف دوڑ لگادی _ اس کی بلندی پر پہنچ کر اِدھر اُدھر نظر دوڑائی ، نزدیک اور دور ہر طرف دیکھا _ ہُو کا عالم تھا _ کہیں کوئی دکھائی نہیں دیا _۔
خاتون نے اپنے اوپر مایوسی طاری نہیں ہونے دی _ اس نے سوچا :’’ تھوڑی دیر ہوگئی ہے _ ہوسکتا ہے ، اب کوئی قافلہ گزر رہا ہو ، جو پہلی پہاڑی سے نظر آجائے _ اب میں پھر اُدھر جاکر دیکھتی ہوں _ ‘‘ اس پر ایک جنونی کیفیت طاری تھی _ وہ پہلی پہاڑی سے دوسری پہاڑی کی طرف ، دوسری پہاڑی سے پہلی پہاڑی کی طرف ، پھر پہلی پہاڑی سے دوسری پہاڑی کی طرف چکّر لگاتی رہی _ پہاڑی پر چڑھتے ہوئے اس کی رفتار سست ہوجاتی ، وادی میں پہنچ کر اس کی رفتار تیز ہوجاتی اور وہ بے ساختہ دوڑنے لگتی _۔
’’ یا اللہ! تو میرا پروردگار ہے ، میں تیری عاجز بندی ہوں _ تو پیدا کرنے والا ہے ، اسی طرح روزی کا انتظام بھی کرنے والا ہے _ جہاں تمام آسرے ٹوٹ جاتے ہیں وہاں تیرا آسرا باقی رہتا ہے _ جہاں تمام سہارے ختم ہوجاتے ہیں وہاں تیرا سہارا قائم رہتا ہے _ تیرے لیے کوئی کام مشکل نہیں _ تو ‘’کُن‘ کہہ دے تو ہر چیز ہوجاتی ہے _ تیرے لیے کیا مشکل ہے کہ صحرا کو گُل زار بنادے اور ریگستان میں پانی نکال دے _۔
خاتون کے قدم جتنی تیزی سے حرکت کر رہے تھے اتنی ہی تیزی سے اس کی زبان پر دعائیہ کلمات جاری تھے _ دونوں پہاڑیوں کے مسلسل سات چکّروں نے اسے بے دم کردیا تھا _ اس نے سوچا : ’’ پتہ نہیں ، میرے بچے کا کیا حال ہو؟‘‘ یہ خیال آتے ہی وہ پلٹی اور ڈھلان سے دوڑتی ہوئی بچے کے پاس جا پہنچی _۔
لیکن یہ کیا؟ یہ تو معجزہ ہوگیا _ جہاں بچہ لیٹا ہوا تھا اس کے قریب چشمہ پھوٹ پڑا _ زمین سے پانی ابلنے لگا _ خاتون کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا _ اس کی آنکھوں میں چمک آگئی تھی _ اس کی دعا اتنی جلدی قبول ہوجائے گی ، اسے امید نہ تھی _ وہ زم زم (رک جا، رک جا) کہتی جاتی تھی اور جلدی جلدی چشمہ کے گرد گھیرا بنانے کی کوشش کرتی جا رہی تھی _۔
کتنی بڑی آزمائش تھی ، جس میں یہ خاتون سُرخ رو ہوئی؟! کتنی بڑی قربانی تھی جو اس نے بارگاہِ الٰہی میں پیش کی؟! اتنے ہی بڑے انعام سے اللہ تعالیٰ نے اسے نوازا _ چار ہزار برس سے لوگ اس کے نقش قدم پر اپنا قدم رکھنے ، اس کی طرح چلنے اور دوڑنے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں _ اس کے اس اضطرابی اور اضطراری عمل کو ‘عبادت بنادیا گیا ہے _ اربوں کھربوں انسانوں نے اس کی نقل کرکے سکون و اطمینان کی لذّت پائی ہے _ اسی طرح چار ہزار برس سے زمزم کا فیض جاری ہے _ اربوں انسان حرم میں پہنچ کر اس سے سیراب ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ اسے دنیا کے کونے کونے میں لے جاتے ہیں ، جہاں ان سے زیادہ تعداد میں لوگ اس سے آسودگی حاصل کرتے ہیں _۔
کتنی بڑی قربانی تھی اس خاتون کی؟!
اور کتنے بڑے انعام سے اللہ تعالیٰ نے اسے نوازا؟؟!!
………
’’ پیارے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں _ تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘—-’ابّا جان! آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اسے کر گزریے _ آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے _‘‘
’’یہ دو افراد کے درمیان ہونے والی گفتگو ہے _ ان میں سے ایک باپ ہے ، دوسرا بیٹا _ باپ اپنا خواب سنا کر بیٹے کا عندیہ لے رہا ہے اور بیٹا سوچ کر جواب دینے کے لیے وقت مانگنے کے بجائے فوراً باپ کو اطمینان دلاتا ہے اور اپنی سعادت مندی کا مظاہرہ کرتا ہے۔‘‘
یہ خواب کوئی معمولی خواب نہ تھا اور بیٹے سے کی جانے والی رائے طلبی بھی معمولی نہ تھی _ خواب سنانے والے باپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اپنے بیٹے سے کس چیز کی خواہش کررہا ہے؟ اور جواب دینے والا سعادت مند بیٹا بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا مطلب کیا ہے؟
باپ طویل عرصہ تک اولاد کی نعمت سے محروم رہا ، لیکن وہ صبر کا دامن تھامے رہا _ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وہ ہمیشہ دست بدعا رہا کہ وہ اسے نیک اولاد عطا کردے ، جو اس کے مشن میں اس کا ساتھ دے _ بالآخر اللہ نے اس کی دعا سن لی اور اس عمر میں جب خواہشات دم توڑ دیتی ہیں اور قوی مضمحل ہوجاتے ہیں (یعنی 84 برس کی عمر میں ) اسے اولاد سے نوازا _ بڑھاپے کی اولاد یوں بھی بہت پیاری ہوتی ہے اور اگر وہ اکلوتی ہو تو اسے ٹوٹ کر چاہا جاتا ہے اور اس پر محبت کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں _۔
ان دو کرداروں کے درمیان ایک تیسرا کردار ہے ، جو عموماً نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے اور اس کا چرچا بھی نسبتاً کم ہوتا ہے وہ ہے ماں کا کردار یقیناً باپ کی قربانی عظیم ہے ، جو اشارۂ الٰہی پاکر بڑھاپے کی اکلوتی اولاد کو قربان کرنے پر تیار ہوگیا _ یقیناً بیٹے کی قربانی بھی عظیم ہے ، جس نے اپنی جان کی پروا نہیں کی اور امرِ الٰہی اور خواہشِ پِدری کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا _ لیکن ماں کی قربانی کی عظمت بھی کسی درجے میں ان دونوں سے کم نہ تھی ، کیوں کہ اس نے اپنی ممتا کا گلا گھونٹ دیا تھا اور شوہر کے اشارے پر اپنا چہیتا اور لاڈلا بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے اس کے حوالے کردیا تھا _ باپ تو پیغمبر تھا اور بیٹے میں بھی پیغمبری کی نشانیاں موجود تھیں ، ماں پیغمبر نہ تھی ، لیکن تسلیم و رضا ، خود سپردگی اور سرافگندگی کے معاملے میں اس نے دونوں کی ہم سری کی تھی _۔
ماں کی یہ آزمائش پہلی نہ تھی ، بلکہ وہ اس طرح کی آزمائش سے پہلے بھی دوچار ہوچکی تھی ، جب اسے اور اس کے شیر خوار کو بے آب و گیاہ وادی میں زندگی گزارنے کے لیے تنِ تنہا چھوڑ دیا گیا تھا _ وہ اُس آزمائش میں پوری اتری تھی _ لیکن یہ آزمائش تو عظیم تر تھی _ بیٹے کی قربانی ، جو اکلوتا اور انتہائی چہیتا تھا ، جس نے برسوں تک ماں کی تنہائی دور کی تھی ، جس سے مستقبل میں بہت سی امیدیں وابستہ کی جاسکتی تھیں _۔
ذرا اس لمحے کا تصوّر کیجیے جب باپ اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے اس کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے نکلا ہوگا ، اُس وقت ماں کی کیفیات کیا رہی ہوں گی؟ اس کا دل کیسے کیسے تفکّرات کی آماج گاہ بنا ہوگا؟ کیسے کیسے خیالات نے اسے پریشان کیا ہوگا ؟ لیکن قربان جائیے اس خاتون پر جو تسلیم و رضا کا پیکر بنی رہی اور ایک حرفِ شکایت بھی اس کی زبان پر نہ آیا، بلکہ رب کی رضا پر اس نے اپنے تمام ارمانوں کو بھینٹ چڑھادیا _۔
کتنی عظیم آزمائش تھی ، جس میں باپ ، بیٹا اور ماں سب کام یاب ہوگئے؟! اور کتنا عظیم انعام تھا ، جو اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں انہیں عطا کیا؟؟!! اللہ تعالیٰ نے دوسری بیوی سے دوسرے بیٹے کی بشارت دی ، ساتھ ہی پوتے کی بھی خوش خبری سنائی _ اس نے عہد کیا کہ ان دونوں بیٹوں کی نسلیں خوب پھلیں پھولیں گی اور ستاروں کی مانند ان کی ضیاپاشیوں سے پورا عالم منوّر ہوگا _ ان انعامات کے ساتھ سب سے بڑے انعام سے اللہ تعالیٰ نے یوں نوازا کہ اس نے اس عمل کو عبادت کا درجہ دے دیا اور اسے زندہ جاوید بنا دیا _ چار ہزار برس سے زائد عرصہ گزر گیا _ اس وقت سے آج تک ہر برس لاکھوں کروڑوں انسان اس عمل کو دہراتے اور اُس خانوادے کو یاد کرکے اس پر صلاۃ و سلام بھیجتے ہیں _۔
اشارۂ غیبی پاکر باپ قربان کرنے پر تیار ہوگیا ، بیٹا قربان ہونے پر تیار ہوگیا اور ماں نے دل پر پتھر رکھ کر اسے قربان کرنے کے لیے حوالے کردیا _ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں صریح حکم دے کر اس عمل سے روک دیا تو سب فوراً رک گئے _ ذرا ہم اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھیں۔
کیا ہم اس میں تسلیم و رضا کا وہی جذبہ پاتے ہیں؟
کیا ہم نے عزم کیا ہے کہ اللہ کا جو بھی حکم ہوگا اس پر عمل کریں گے اور جس چیز سے بھی اس نے روکا ہے اس سے رک جائیں گے؟
اگر نہیں
تو پھر اُن نفوس قدسیہ سے ہماری نسبت کا دعویٰ جھوٹا ہے _۔